عرفان کا آئی پی ایل پر راج ہوتا
ہفتے کا دن کرکٹ دیکھنے کے لیے اچھا تھا، اور پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف فتح نے ٹورنامنٹ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
محمد عرفان کو باؤلنگ کرواتے دیکھ کر مجھے پانچ سال پہلے کا وقت یاد آگیا جب انہوں نے آئی پی ایل میں ہماری ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے کھیلا تھا۔
یہ جولائی 2010 کے اواخر کی بات ہے جب مجھے ہمارے باؤلنگ کوچ وسیم اکرم کی کال آئی۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نئے اور جونیر ہندوستانی کھلاڑیوں کو میچوں کی ایک سیریز کے لیے سری لنکا لے جانا چاہتی تھی، اور وسیم اکرم جاننا چاہتے تھے کہ آیا ایک اور کھلاڑی کی گنجائش ہے یا نہیں۔
وسیم اکرم نے بتایا کہ وہ کھلاڑی پاکستان سے تعلق رکھنے والا ایک فاسٹ باؤلر ہے جس کا قد 7 فٹ ایک انچ ہے۔
7 فٹ ایک انچ؟ یہ بہت ہی زیادہ تھا۔ جوئل گارنر سے بھی 5 انچ زیادہ۔ میں نے وسیم اکرم سے پوچھا کہ کیا وہ اس سے ذاتی طور پر مل چکے ہیں؟ جواب نفی میں آیا۔ لیکن پھر بھی ہم اتنے بے وقوف نہیں تھے کہ 916 انٹرنیشنل وکٹیں لینے والے فاسٹ باؤلر کے دیے گئے نام کو نظرانداز کردیں۔
پہلی ملاقات
میں ان سے پہلی بار ہمارے ہوٹل کی لابی میں ملا اور جب وہ مجھ سے ملنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو میں حیران رہ گیا۔ وہ نہ صرف 7 فٹ ایک انچ کے تھے، بلکہ ان کا جسم بھی پوری طرح متناسب تھا، اور ٹانگیں بازو چھوٹے بڑے نہیں معلوم ہو رہے تھے۔
شروع کے دو دنوں میں ہی ہمیں دو چیزوں کا اندازہ ہو گیا۔ پہلی بات یہ کہ گگو منڈی (ملتان میں عرفان کا آبائی گاؤں) کا یہ لڑکا انتہائی ذہین ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے قد کے لحاظ سے کافی اچھا کھلاڑی ہے۔ وہ فیلڈنگ اتنے جذبے کے ساتھ کرتا تھا کہ پاکستان کرکٹ اکیڈمی کے باؤلنگ کوچ عاقب جاوید نے اسے مشورہ دیا کہ اپنا ٹخنہ یا گھٹنا مڑ جانے سے خود کو بچا کر رکھیں۔
ہر کمرے میں دو کھلاڑی ٹھہرے ہوئے تھے، اور عرفان کا کمرہ آسام کے ارلم کنور والا تھا۔ ارلم ایک بہترین آف اسپنر تھے، اور انہیں ہندی اور اردو اتنی ہی آتی تھی جتنی عرفان کو آسامی۔ لیکن ان کی آپس میں خوب جمی، اور ہم سب کبھی بھی نہیں جان پائے کہ آخر وہ کس طرح آپس میں بات چیت کیا کرتے تھے۔
عرفان کا پہلا شکار ہمارے ایک اسٹاف ممبر تھے۔ میتھیو جوئے نے عرفان کو سوئمنگ پول میں کھڑے ہوئے دیکھا۔ عرفان سینے تک پانی میں تھے۔ میتھیو تقریباً سوئمنگ پول میں ڈوب ہی گئے تھے کیونکہ پانی میتھیو کے اندازے سے ڈیڑھ فٹ زیادہ گہرا تھا۔
میچ جتانے والی کارکردگی
اس کے بعد ان کے سارے شکار فیلڈ میں رہے۔ انہوں نے ہمارے لیے چار میچ کھیلے جن میں سے ایک 50 اوور کا اور تین ٹی 20 میچ تھے۔ ان کی پہلی بال ہمارے کیپر سنجو سیمسن کے سر کے اوپر سے گزر گئی اور ہم سب لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
مائیکل وینڈورٹ اور جیون مینڈس جیسے عالمی پائے کے کھلاڑیوں کو بھی بال کو نشانہ بنانے میں مشکل پیش آئی۔ عرفان چار میچوں میں دس وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے، لیکن ان کی باؤلنگ کا اصل فائدہ ان کے فاسٹ باؤلر پارٹنر پروندر اوانا کو ہوا، جنہوں نے ان بیٹسمینوں کی کئی وکٹیں لیں جو عرفان کے اوورز کے اختتام پر خوش ہو کر ہر بال پر بلا گھمانے کی کوشش کر رہے تھے۔
عرفان ٹیم کے پرفیکٹ کھلاڑی تھے، اور ساری گروپ ایکٹیویٹیز میں حصہ لیتے تھے سوائے ایک کے۔ سب کھلاڑیوں نے کپڑوں کی شاپنگ کے لیے جانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے منع کر دیا کیونکہ ان کے مطابق سات فٹ قد والے لوگوں کے لیے دکانوں پر کپڑے ریڈی میڈ دستیاب نہیں ہوتے۔
ٹور کے اختتام پر ہم نے انہیں کنٹریکٹ آفر کیا، جو اس بات سے مشروط تھا کہ اگر آئی پی ایل پاکستانی کھلاڑیوں کو اجازت دے۔ انہوں نے خوشی سے یہ آفر قبول کی، لیکن ایک ایسے شخص کے لیے جس نے پی وی سی پائپ بنانے کی فیکٹری میں تین سال تک کام کیا، اس کے لیے آئی پی ایل بھی پائپ لائن میں موجود ایک خواب ہی رہی۔
ہم نے ٹور میں چھ کے چھ میچ جیتے، اور یہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے سنہرے دور کا آغاز تھا۔ تمام کھلاڑیوں میں سے صرف ایک، دیبابرتا داس نے ہی کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لیے دوبارہ کھیلا، لیکن عرفان، سنجو اور پروندر نے ہی ٹیم کو وہ جذبہ دیا جس کی وجہ سے وہ دو سال بعد چیمپئن شپ کھیل پائی۔
ویسے ہم نے ان کا قد ناپا تھا۔ وہ 7 فٹ 1 انچ کے تھے، جبکہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور نے ان کا قد 6 فٹ 10 انچ لکھا تھا۔ اسی لیے مجھے پاکستان کرکٹ کبھی سمجھ نہیں آیا۔
یہ مضمون سب سے پہلے scroll.in میں شائع ہوا۔
جوئے بھٹاچاریہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم مینیجمنٹ کے سابق ممبر ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں