• KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:30pm Maghrib 5:07pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm
  • KHI: Asr 4:15pm Maghrib 5:51pm
  • LHR: Asr 3:30pm Maghrib 5:07pm
  • ISB: Asr 3:29pm Maghrib 5:07pm

یارا ٹول کافران دے

شائع February 18, 2015

1992 میں جب ہندوستان میں بابری مسجد کی بے حرمتی کی گئی، تو پاکستان میں بھی اس کا ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ کراچی کے علاقے کیاماڑی ( اسے کیماڑی کہا جاتا ہے مگر درست نام کیاماڑی ہے کیونکہ 'کیا' نام ہے جب کہ ماڑی عمارت کو کہتے ہیں) میں مشتعل افراد کو توڑپھوڑ کے لیے کوئی مندر نہ ملا توانھوں نے مسیحی مشنری کے زیر اہتمام چلنے والے Sacred Heart School پر دھاوا بول دیا۔

ہجوم بڑی تیزی سے اسکول کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک مجمعے میں سے ایک بزگ آگے بڑھے اور ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر زور سے پشتو میں چلائے: ”داکر کرسٹان باندے، ہندوان نہ دے، او بابری جماعت ہندوانوں حملہ کڑے دہ (یہ ہندو نہیں مسیحی ہیں اور بابری مسجد پر حملہ ہندوؤں نے کیا ہے) اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم اس بلاگ کے آخر میں بتائیں گے۔

تاہم یہ بتا دیں کہ یہ واقعہ ہمارے دوست صحافی انور خان نے ہمیں سنایا تھا۔ ایک دن ہم نے ان سے پوچھا کہ سنا ہے کراچی میں آریہ سماج نامی تنظیم کام کرتی تھی اور ان کے مندر بھی تھے، تو انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے کیاماڑی میں ایک عمارت ہے جس پر آریہ سماج کمپاؤنڈ اردو میں لکھا ہے۔ ان سے طے پایا کہ اتوار کے دن ہم وہاں جائیں گے، لیکن اتوار کو وہ نہ چل سکے۔ اگلے اتوار کو میں انور خان، فوٹو جرنلسٹ ماجد بٹ اور اختر سومرو کے ہمراہ کیاماڑی پہنچا۔ مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے وہ ہمیں ایک پرانی عمارت کے سامنے لے گئے۔ عمارت کے دروازے پر کوئی تختی نہیں لگی ہوئی تھی۔

ہم نے انور خان کی جانب دیکھا تو وہ پریشان ہو کر بولے یار تختی کچھ عرصے پہلے تک تو لگی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں ماجد بٹ نے دروازے کے اوپر اور بائیں طرف لگی ہوئی تختیوں کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی لیکن یہ تختیاں ہندی میں تھیں۔ انور خان کے ہمراہ ان کے ایک مقامی دوست محمد علی سومرو صاحب بھی تھے۔ انہوں نے عمارت کے بائیں جانب ایک کے جی اسکول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مقام پر مندر ہوتا تھا۔

محمد علی سومرو صاحب اور انور خان ہمیں علاقے میں ایک اور جگہ لے گئے اور وہاں ایک عمارت دکھلائی جو باقاعدہ ایک مندر کی عمارت لگ رہی تھی، لیکن اس کے بیرونی دروازے پر بھی ایک کے جی اسکول کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ آریہ سماج کمپاؤنڈ پر لگی تختیاں ہندی میں تھیں اور انہیں پڑھنے کے لیے ہندی دانوں سے رابطہ کرنا تھا۔ اور اس سے قبل یہ معلوم کرنا تھا کہ آریہ سماج اگر کراچی یا سندھ کے دیگر علاقوں میں تھا تو اس کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ اس حوالے سے معروف مورخ عثمان دموہی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں لکھتے ہیں کہ:

کچھ انتہا پسند ہندوؤں کا خیال تھا کہ قدیم زمانے میں تمام دنیا پر آریوں کی حکومت تھی۔ چنانچہ آریوں کو دوبارہ اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرلینا چاہیے۔ چونکہ وہ دنیا کی اعلیٰ ترین قوم ہیں لہٰذا ہندوؤں میں اعلیٰ درجے کی قومیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ غیر مذاہب کے ماننے والوں کو یا تو جلا وطن کردیا جائے یا پھر سوکھی لکڑی کی طرح آگ میں جلادیا جائے۔ آریہ سماج ہندوؤں کی پرانی تنظیم ہے۔ جو ہندو مہا سبھا سے بھی قبل قائم ہوئی تھی۔ اس کا بانی منشی رام نامی ایک انتہا پسند ہندو تھا۔ یہ شخص تعلیم یافتہ اور ابتداء میں پنجاب پولیس میں ملازم تھا۔ بعد میں وہ پولیس کی ملازمت چھوڑ کر وکالت کرنے لگا اور پھر ترک دنیا کا ڈھونگ رچا کر گیان دھیان کی نام نہاد زندگی گزارنے لگا اور بالآخر منشی رام سے شردھانند بن بیٹھا۔ اس جماعت کا پس پردہ انگریز حکومت سے گہرا ربط و ضبط قائم تھا۔ انگریزوں کی شہہ پر ہی ہندو مسلم اتحاد کو فنا کرنے کے لیے اس جماعت نے پورے ہندوستان میں اپنی شاخیں قائم کی تھیں۔

سوامی شردھانند جی کو ان کی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی داستان دیوان سنگھ مفتون، جو ایک بہت بڑے صحافی تھے اور اپنا ایک اخبار ”ریاست“ کے نام سے شائع کرتے تھے، نے اپنی کتاب 'ناقابل فراموش' میں بیان کی ہے، اور لکھا ہے کہ ان کے اخبار کے ایک کاتب نے، جو اس سے پہلے بھی مذہبی جنونیت کی علامات ظاہر کر چکا تھا، سوامی جی کو مذہبی وجوہات کی بنا پر قتل کیا تھا۔

پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”اھی ڈینھں اھی شینھن“ (وہ دن وہ لوگ) میں آریہ سماج کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 1920 کی اصلاحات کے بعد ہندوؤں نے تین چار تحریکیں بیک وقت شروع کیں (1) شدھی سنگھٹن (2) آریا سماج (3) ہندو مہا سبھا۔ ان سب کی سرتاج پرانی کانگریس تھی جو یہ نام نہاد دعویٰ کرتی تھی کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ جماعت ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد ہندوؤں کی بالادستی قائم کرنا تھا۔ آریہ سماج کی سندھ میں سرگرمیوں کے حوالے سے پیر علی محمد راشدی مزید لکھتے ہیں کہ:

ہندو مسلم فسادات کا آغاز لاڑکانہ سے ہوا، جو 29 مارچ 1928 کو ایک مسلمان عورت کے مسئلے پر ہوا۔ کریماں نامی یہ عورت ایک دیہاتی مسلمان کی بیوی تھی اور تین بچوں کی ماں تھی۔ کریماں ایک ہندو سے بدراہ ہو کر لاڑکانہ بھاگ آئی اور بچوں سمیت ہندو آریہ سماجیوں (جنہوں نے شدھی کی تحریک شروع کررکھی تھی) کے ہاتھوں مرتد ہوگئی۔ یعنی بچوں سمیت ہندو دھرم میں داخل ہوگئی۔

شہر کے مسلمانوں نے بچوں کے حصول کے لیے عدالت میں درخوست دائر کی لیکن ان کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ مسلمانوں نے وفد کی شکل میں ضلعی اہل کاروں سے بچوں کے معاملے پر ملاقات کی۔ ہندوؤں نے اس دوران کریماں اور بچوں کو اپنے پاس چھپا لیا۔ کلکٹر سے ناامید ہو کر وفد ہجوم کی شکل میں حاجی امیر علی خان مرحوم سے ملنے گیا اور وہاں سے مایوس ہو کر واپس لوٹتے ہوئے وفد میں شامل کچھ لڑکوں نے ہندوؤں کے دو بیڑی سگریٹ فروخت کرنے والے کیبنوں کو لوٹا اور ہندو لڑکوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے بعد شہر میں فساد کے نتیجے میں ہندوؤں کی چار پانچ اور دکانیں متاثر ہوئیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ مذہبی اشتعال کے باوجود ہندوؤں کو کوئی جانی نقصان نہ پہنچا۔ نہ ہی کوئی ہندو مارا گیا اور نہ ہی شدید زخمی ہوا۔

دکانیں لوٹنے والی بات بھی عدالتوں میں جھوٹی ثابت ہوئی۔ کیوں کہ لوٹا ہوا مال کسی مسلمان سے برآمد نہ ہوا اور نہ ہی خود ہندو یہ ثابت کر سکے کہ ان کی دکانوں کو لوٹا گیا تھا۔ انگریز جج نے اپنے فیصلے میں ہندو گواہوں کو جھوٹا اور بے ایمان قرار دیا۔

ہندوؤں نے اس مختصر اور وقتی حادثے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے جھوٹے مقدمات درج کروا کر 80 مسلمانوں کو جیلوں میں بند کروایا۔ لاڑکانہ کے اہم مسلمان قومی کارکنوں کو خاص طور پر گرفتار کروایا۔ خان بہادر ایوب کھوڑو کو، جو اس وقت بمبئی کاؤنسل میں مسلمانوں کے منتخب نمائندے تھے، صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمانوں کے ہمدرد ہیں، جھوٹے مقدمے میں پھنسوانے کی کوشش کی۔

موجودہ دور میں کراچی یا سندھ کے دیگر علاقوں میں آریہ سماج کا وجود نظرنہیں آتا۔ آریہ سماج کی آخری نشانیاں کیاماڑی آریہ سماج کمپاؤنڈ کے مرکزی دروازے پر لگی ہوئی وہ تختیاں ہیں جو ہندی میں ہیں۔ انہیں پڑھنے کے لیے ہمارے دوست حسن منصور، حفیظ چاچڑ اور اجمل کمال نے ہماری مدد کی۔ تخیتوں پر لکھی ہوئی تحریروں کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

آریہ سماج کیاماڑی

یہ آدھار شیلا (سنگ بنیاد) شری آچاریہ رام دیو جی (گروکل کانگڑی) نے 15-9-1929 کو رکھا۔

اوم شری سوامی سیوک آنند جی کے ادیوگ (تعاون) سے یہ مندر بنایا گیا۔

کیاماڑی کے دونوں مندروں پر کے جی اسکول ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق آریہ سماج کا بنیادی مقصد یہی ہوتا تھا کہ ہندوؤں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، جہاں ہندو نوجوانوں کو ان کی قدیم تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں اور وہ اس پیغام کو مزید آگے بڑھائیں۔ آریہ سماج کمپاؤنڈ میں اب صرف مسلمان آباد ہیں لیکن مندروں میں قائم ہونے والے اسکول علاقے کے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کررہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ اگر آریہ سماج تنظیم ختم نہ ہوتی، تو کیا اب بھی ان اسکولوں کے دروازے مسلمانوں پر کھلے ہوتے؟ اور اگر آریہ سماج تنظیم نہ ہوتی، تو کیا کوئی اور تنظیم کیاماڑی جیسے علاقے میں اسکول قائم بھی کرتی؟

بہرحال ہم واقعہ سنا رہے تھے کیاماڑی کے مشتعل ہجوم کا کہ جہاں ابھی ان بزرگ کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ مجمعے میں سے ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہوا ”یارا ٹول کافران دے“ (یاروں یہ سارے کافر ہیں)۔ بس اس کے بعد وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوتا ہے۔ واقعے کے وقت اسکول کی چار دیواری تقریباً چار فٹ اونچی تھی اور اب تقریباً دس فٹ اونچی ہے۔

— تصاویر اختر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

Mohsin Soomro Feb 18, 2015 07:44pm
Akhtar Balouch Sahab Really a nice blog again.I am feeling pleased to read this.I was searching for Mandirs in Karachi for a long time and i am glad that by your previous blogs and this one,i surely think that my search is complete..I am really thankful to you for sharing this informative blog.Keep finding and writing about these type of sacred places and other historical places.I am sure that in your next blog, i will find some other very informative thing about sacred places in Karachi.Good Work Sir.
adeel ali Feb 18, 2015 08:30pm
achchi malumat hai ye wo malumat hai jis ka ilm karachi may takriban kisi ko nahi hoga or jo log in schools kay aas pas rehtay hain un ko bhi shayad is kay baray may malumat nahi hogi, kher nice blog Akhtar sahab and thanks dawn.com
MUKHTAR AHMED BHAI JI Feb 18, 2015 08:49pm
akhtar baloch ji jafishani ke sath karachi ki history ko manzer aam per lane ka kam anjam de rahe hen us se hmari bigri hoi tariq druset or ojhel tariq manzar aam per aarahi he mare kheyal me is tmam tariq ko kitabi shakel me yekja karne ki shidet se zaroret he
Waseem Haider Feb 19, 2015 07:40am
Beautiful ,if this blog and the one on Guru Mandir could be reproduced in Roman, will reach to larger audience
sauraw Feb 19, 2015 11:06am
Boht hi zabardast tehkeeq or maloomat. Apki tehreer ki collection honi chaheye sir.
ابوبکر بلوچ Feb 19, 2015 12:43pm
محترم اختر بلوچ نے حالیہ مضمون میں کراچی میں آریہ ہندوؤں کے بارے میں انتہائی اہم تحقیقی مضمون لکھ کر یقیناً بہت بڑی کمی کو دور کردیا ہے،، ان کا نہ صرف یہ مضمون بلکہ تمام مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں،،، ہمیں امید ہے کہ محترم اختر بلوچ صاحب جلد اپنے مضامین پر مشتمل کتاب بھی ترتیب دیں گے،، جو کراچی کے حوالے سے ایک انتہائی اہم دستاویز ثابت ہوگی ،،، جس سے کراچی کا ہر طبقہ استفادہ حاصل کرے گا،،
Cedar Feb 19, 2015 02:42pm
Excellent review of the past incidents happened in this city. The blog gives us a glimpse into the forgotten happenings. It appears the before 1992, Keamari had been a society with co-existence but Pak-India hostility dirtied its very social environment. Good work!
zaki Feb 19, 2015 02:46pm
akhter baloch sahib aap ki story prh kr ek tu ham tareekh sy ashna ho rhy hain aur dosru tarf krachi ko own krny walon ky bheed bhi khulta ja rha hai .. apna Khyaal rkhna . kaheen namaloon aap ko tareekh ka sbaq na sikh deen
Ailya Suleman Khan Feb 19, 2015 09:50pm
The knowledge I have gained by reading this article is more than I was expecting after reading its heading. I have read Akhter Balochs previous articles about the histoty and he is shedding light over those issues which are neglected in our so called modern society. The new generation does not even know the history Karachi even. Thanks to Dawn that he is publishing such good material, as, people like me who wants to discover places by reading, Akhter sahab is the best so far.
ahmed khan Feb 22, 2015 12:12am
bhot bhot shandar aur malumat say bhari tehrer hai akhtar shab ap apna kam jari rakhay bhot bhot shukriya

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2024
کارٹون : 26 دسمبر 2024