لاہوری بسنت… ماضی کا قصّہ
ایک وقت تھا جب ماہِ فروری شروع ہوتے ہی زندہ دلانِ لاہور موسم بہار کا استقبال بسنت منا کر کرتے تھے۔ شہرِ لاہور کی سڑکوں کو دلہن کی طرح رنگ برنگی پتنگوں سے سجایا جاتا تھا۔ سڑکوں کی درمیانی کیاریاں گیندے کے بسنتی پھولوں سے راہگیروں کو آمدِ بہار کی نوید سناتی تھیں۔ نئے سال کے پہلے مہینے سے ہی نیلا آسمان دیدہ زیب رنگوں کی پتنگوں سے سجنے لگتا تھا۔ ہر اتوار کے اتوار فضا بوکاٹا اور آئی بُو کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ ہوٹلز، ریسٹورنٹس، پارکس اور میدانوں میں بسنت میلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔
شہر کی سڑکوں کے کناروں پر ڈور ساز اڈّے لگائے ڈوریں تیار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ گلی محلے کی دکانیں بسنتی سیزن کو کیش کروانے کے لیے اضافی کاروبار کرتے ہوئے پتنگیں بھی بیچا کرتی تھیں۔ کیٹرنگ والوں کے پاس گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
پڑھیے: بسنت پر پابندی کے معاشی اثرات
اندرونِ لاہور کی چھتوں کی ایڈوانس بکنگ مہینوں پہلے سے ہی شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ لوگ گاڑی کی ڈگیاں بھرے اور موٹر سائیکل سوّار گڈّے اور پریاں تھامے سڑکوں پر جاتے دکھائی دیتے تھے۔
عید کی چاند رات کی طرح بسنت کی چاند رات بھی جوشیلے لاہوریوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی تھی۔ ہفتے کی شام کو شروع ہونے والی بسنت اتوار کو بعد از مغرب ختم ہوتی تھی۔
مگر پھر وقت آیا جب میڈیا پر خطرناک ڈور کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی خبریں بریکنگ نیوز کے طور پر نشر ہونے لگیں۔ شام کے اوقات میں چلنے والے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام زہریلی ڈور کے ہاتھوں ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانے لگے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بسنت کو ہندوانہ تہوار گردانتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دینے لگے۔
اس طرح پوری دنیا میں مشہور لاہوری بسنت کو جلنے والوں کی نظر لگ گئی۔ حکومت نے اموات کا سبب بنے والی خطرناک ڈور پر پابندی لگانے کے بجائے بسنت پر ہی پابندی لگا دی۔
ویسے تو جو پروگرام نیوز چینلز پر بسنت کے خلاف کیے گئے، ان میں صحافت کے اصولوں کے عین مطابق بسنت کے خلاف اور بسنت کے حق میں بولنے والوں کو مدعو کیا گیا۔ حکومتی کمیٹیوں نے بھی اپنی کارروائیاں کرتے ہوئے خوب میٹنگز کیں۔ مگر سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی حل نہیں نکل سکا۔ جس کا خمیازہ لاہوریوں سمیت بسنت کے شوقینوں کو بھگتنا پڑا۔
بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی۔ میں ایک مرتبہ اپنے پروگرام کے میزبان کو لینے ڈی سی او لاہور کے آفس چلا گیا جہاں بسنت کمیٹی کی میٹنگ جاری تھی۔ میٹنگ لمبی چلنے کی وجہ سے مجھے بھی دفتر کے اندر میٹنگ میں جانے کا موقع مل گیا جہاں سول سوسائٹی کے لوگوں کے علاوہ کچھ مولانا حضرات بھی براجمان تھے اور یہ تمام افراد سرکاری افسروں کے ساتھ مبینہ طور پر بسنت کے انعقاد کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔
سول سوسائٹی اور سرکاری افسروں کی ہزاروں دلائل کے بعد بھی مذہبی ملاؤں کا کہنا تھا کہ ہم تو کسی بھی صورت بسنت منانے کی تائید نہیں کریں گے کیونکہ ہمیں لوگوں سے گالیاں نہیں سننی۔ مزید یہ کہ ہم بسنت پر ہلاک ہونے والوں کے شریک جرم نہیں ہو سکتے۔ ان دلائل کے بعد کمیٹی نے اعلامیہ جاری کیا کہ بسنت پر پابندی عائد رہے گی۔
مزید پڑھیے: کٹی پتنگ
خیر۔ اس بحث سے قطع نظر کہ بسنت منائی جانی چاہیے یا نہیں، پتنگ بازی سے ناواقف لوگ اکثر یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ آخر پتنگ کی ڈور کس طرح کس کی جان لے سکتی ہے؟ اصل میں ہلاکتوں کی وجہ وہ دھاتی موٹی ڈور ہوتی ہے جسے مختلف کیمیکلز ملا کر تیار کیا جاتا ہے اور جس کی موٹائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ آرام سے ٹوٹ نہیں پاتی۔
دراصل پتنگ بازی بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا نام ہے۔ جب ایک پتنگ باز مختلف داؤ پیچ لگا کر دوسرے کی پتنگ کو کاٹتا (بو کرتا) ہے تو اس کی خوشی کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خود پتنگ باز ہو اور جسے پتنگ کٹوانے اور پتنگ کاٹنے کا پتا ہو۔
لہٰذا دوسرے کی پتنگ کاٹنے کے لیے پتنگ باز موٹی اور کیمیکل والی ڈور استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق مہنگی سے مہنگی ڈور خریدتا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ ہی حقیقت میں بسنت پر پابندی کا سبب بنی۔
ڈور ہلاکت کا سبب کیسے بنتی ہے؟
جو لوگ پتنگ بازی نہیں جانتے، ان کا سوال ہوتا ہے کہ پتنگ تو آسمان پر اڑتی ہے تو لوگوں کا گلا ڈور سے کیسے کٹ سکتا ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب پتنگ پیچے میں کٹتی ہے تو ڈور پتنگ اور اڑانے والے کے ہاتھوں کے کہیں درمیان سے کٹتی ہے اور جب اڑانے والا کٹی پتنگ کی زمین پر گرنے والی بقیہ ڈور کو واپس کھینچتا ہے تو اس دوران ڈور زمین پر گرتی ہے جسے اڑانے والا ڈور بچانے کی خاطر تیزی سے کھینچ رہا ہوتا ہے۔
اسی دوران جب ڈور کسی سڑک پر گرتی ہے تو گزرنے والوں کے اوپر جا پڑتی ہے اور چونکہ ڈور موٹی اور کیمیکل سے تیار شدہ ہوتی ہے لہٰذا وہ چھری سے بھی زیادہ تیز ثابت ہوتی ہے۔
ایسی صورت میں موٹر سائیکلوں پر جانے والوں پر جب ڈور گرتی ہے تو ان کی گردن پر پھر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار یا راہگیر کی ہلاکت واقع ہو جتی ہے۔
ہلاکتیں کن جگہوں پر ہوتی ہیں؟
ویسے تو ماضی میں ہونے والی بسنتوں پر ڈور پھرنے کے علاوہ چھتوں سے گرنے کی وجہ سے اور کرنٹ لگنے سے بھی ہلاکتیں دیکھی گئی ہیں مگر ڈور پھرنے سے ہلاکتیں ایسی سڑکوں پر سامنے آئی ہیں جو چوڑی ہوتی ہیں۔ سڑکیں چوڑی ہونے کی وجہ سے ڈور زمین پر گرتی ہے اور ہلاکتوں کا سبب بنتی ہے۔ کم چوڑی سڑکوں پر ڈور زمین پر نہیں گرتی اور چھتوں پر پڑتے ہوئے ہی اڑانے والے کے ہاتھوں تک واپس پہنچ جاتی ہے۔
مزید پڑھیے: خونی دھاگے
یہ بھی تجربے کی بات ہے کہ اندرونِ لاہور میں چھتوں سے گرنے اور فائرنگ کی وجہ سے تو ہلاکتیں سامنے آئی ہیں، مگر ڈور پھرنے کی وجہ سے شاید ہی کوئی ہلاکت ہوئی ہو اور اس کی وجہ یہ کہ اندرونِ شہر کی سڑکیں زیادہ چوڑی نہیں ہوتیں اور کٹی ہوئی ڈور چھتوں پر پڑتے پڑتے اڑانے والے تک واپس پہنچ جاتی ہے۔
کیا پتنگ کا سائز بھی ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے؟
جب پتنگ باز اپنی تسکین اور شو بازی کے لیے بڑی سے بڑی پتنگ اڑاتا ہے تو اسے لازماً ایک مضبوط ڈور درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک مضبوط اور موٹی ڈور استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پتنگ جتنی بڑی ہوگی۔ اس کا وزن بھی اتنا زیادہ ہی ہوگا۔ لہٰذا اس کو اڑانے کے لیے موٹی ڈور ہی چاہیے ہوگی۔ جب دوسرے کی پتنگ کاٹنے کے لیے کیمیکل والی موٹی ڈور پتنگ کٹنے کے بعد زمین پر گرے گی تو وہ یقیناً ہلاکتوں کا باعث بنے گی۔
حل کیا ہے؟
سب سے پہلے تو حکومت کے اندر اتنا حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس نے بسنت کا تہوار منانا ہے۔ ورنہ تو اگر موٹر وے پر تیز رفتاری کی وجہ سے کوئی ہلاکت ہوتی ہے تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ موٹر وے پر ہی پابندی لگا دی جائے۔
جانیے: بسنت اداس ہے
موٹر سائیکلوں پر پابندی
اگر محرم اور عیدین پر ڈبل سواری پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو چوبیس گھنٹوں کے لیے لاہور کی حدود میں موٹر سائیکل پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا سکتی؟ اس کے علاوہ مشرف دور میں موٹر سائیکل والوں کے لیے مفت تاریں بھی دی گئیں تھیں جس کی وجہ سے ڈور موٹر سائیکل سوار پر نہیں پڑ سکتی تھی۔
ڈور کی فروخت
اصل مسئلہ ڈور کا ہے اور اگر حکومت خود اپنی نگرانی میں ڈور تیار کروا کر مخصوص مقامات سے ڈور بیچے تو بھی کیمیکل والی موٹی ڈور کی فروخت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممنوعہ ڈور بیچنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے، تاکہ جو چیز ہلاکت کا سبب بنتی ہے اس کا سدِ باب کیا جا سکے، بجائے اس کے کہ تمام چیزوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔
اندرون شہر تک محدود بسنت
ایک حل یہ بھی ہے کہ بسنت کو اندرونِ شہر تک ہی محدود کردیا جائے۔ مگر اب جتنی آبادی لاہور کی ہوچکی ہے، مشکل ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اندرونِ لاہور میں پورے آسکیں۔ لاہور کے نواحی علاقوں میں بسنت منائی تو جا سکتی ہے مگر لاہوریوں کو مزہ اپنی چھتوں پر بسنت منانے کا ہی آتا ہے۔ بسنت پر مکمل پابندی سے بہتر ہے کہ گراؤنڈز اور پارکوں میں ہی پتنگ بازی کی اجازت دے دی جائے۔
پڑھیے: میری بسنت لوٹا دو!
آخر میں صرف اتنا ہی کہ میں تو بسنت کا شیدائی ہوں۔ اس لیے بسنت منانے کے حق میں ہوں۔ مگر جس کا بیٹا یا بیٹی خطرناک ڈور کی بھینٹ چڑھا ہوگا، وہ کبھی بھی اس تہوار کو منانے کے حق میں نہیں ہوگا جب تک کہ مکمل طور پر اس بات کا یقین نہیں کر لیا جاتا کہ ہلاکتوں کا سبب بننے والے عوامل پر قابو پا لیا گیا ہے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں یہی بہتر ہے کہ تمام تر انتظامات کے بعد ہی اس تہوار کی اجازت دی جائے، ورنہ انسانی جان کسی بھی تہوار سے بڑھ کر ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں