'جے آئی ٹی میں بلدیہ فیکٹری آتشزدگی پر صرف ایک پیرگراف'
کراچی: بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کے متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ شہرت حاصل کرجانے والی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ درحقیقت ملزم رضوان قریشی کے ہتھیار رکھنے کے کیس کے متعلق تھی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے زیرِاہتمام کراچی پریس کلب پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ رپورٹ جرم کے ارتکاب کے بارے میں ملزم کے اعترافی بیان پر مشتمل تھی، اور اس میں فیکٹری کی آتشزدگی پر صرف ایک پیراگراف موجود تھا۔
انہوں نے کہا ’’ملزم نے الزام عائد کیا کہ ایک سیاسی جماعت اس فیکٹری کونذرِ آتش کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کا بیان افواہ پر مبنی ہے۔ اس نے ایک بار بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ وہ اس المناک واقعہ کا گواہ ہے یا اس آتشزدگی کی ذمہ داری لیتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ رینجرز نے بھی یہ جے آئی ٹی خود جمع نہیں کرائی تھی۔بلکہ سندھ ہائی کورٹ نے پہلی مربتہ 2012ء میں اور حال ہی میں جنوری 2015ء میں اس رپورٹ جمع کرانے کا اسے حکم دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے تمام اداروں کو اس المناک سانحے کی معلومات جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
رینجرز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی یہ جے آئی ٹی رپورٹ مذکورہ ملزم کے خلاف آرٹیلری میدان پولیس اسٹیشن میں درج کرائے گئے اسلحہ رکھنے کے ایک کیس (ایف آئی آر نمبر 61/2013) سے متعلق ہے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزدوروں کے حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے اس مسئلے پر یہ دوسری پریس کانفرنس تھی۔
ملزم کے اعترافی بیان آراستہ اس جے آئی ٹی رپورٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کو فیکٹری کی آتشزدگی کا ذمہ دار قرار دیے جانے پر ایک ہنگامہ کھڑا ہونے کے بعد اس مزدور تنظیم کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے۔
ایڈوکیٹ فیصل صدیقی پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو آن لائن |
مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ پیش کیے جانے کا وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا حصول اور فیکٹری مالکان کی جانب سے سیکورٹی اور حفاظت کے حقیقی مسائل پر سے توجہ ہٹانے کی مکروہ کوشش ہے۔
پائلر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کرامت علی کا کہنا تھا ’’فیکٹری کی آتشزدی کے کیس کی تین انکوائریاں کی گئی تھیں۔ پہلی پولیس افسران کی ایک کمیٹی کی جانب سے کی گئی، دوسری فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے، اور تیسری ایک عدالتی انکوائری تھی، جو سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج کی جانب سے کی گئی۔ ان تمام انکوائری میں اس معاملے کا جائزہ لیا گیا، اور بھتے کو مسترد کردیا گیا، جسے اس آتشزدگی پیچھے ایک بنیادی وجہ بتایا جارہا تھا۔ لیکن اس وقت جو وجہ سامنے آئی تھی وہ فیکٹری میں حفاظتی اقدامات کی کمی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اس حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ فیکٹری کے دروازے باہر سے بند تھے، جس کے لیےانتظامیہ مجرم قرار پائی تھی کہ اس کو سامان کی چوری کا خوف تھا۔
فیصل صدیقی نے اس کیس کی موجودہ حیثیت کی وضاحت کی اور کہا کہ کیس فیکٹری مالکان کے خلاف قتل کا ایک کیس تاحال زیرالتواء پڑا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی تھی کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کا مقدمے کا فیصلہ ایک سال کے اندر اندر کیا جائے۔
معاوضے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آتشزدگی سے متاثرہ تقریباً تمام خاندان ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) اور سندھ ایمپلائیز سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن (ایس ای ایس ایس آئی) کی جانب سے پنشن وصول کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کی اکثریت نے پچھلے دو سالوں کے دوران اٹھارہ لاکھ روپے بطور معاوضہ وصول کیے ہیں۔ کچھ خاندان ایسے بھی ہیں، جنہیں اب تک پانچ لاکھ روپے چیکس ملے تھے، وہ سندھ ہائی کورٹ پر ناضر سے یہ رقم حاصل کرسکتے ہیں۔
جرمن ریٹیلر کے آئی کے کے خلاف کیسز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کمپنی نے پہلے ہی لاکھوں ڈالرز ان خاندانوں کو بطور معاوضہ ادا کیا تھا۔
تبصرے (4) بند ہیں