فاطمہ جناح اور ریڈیو کے فرمانبردار ٹرانسمیٹر
فاطمہ جناح کی تدفین اورتقریر کے حوالے سے گذشتہ بلاگ میں پیش کیے جانے والے حقائق کے حوالے سے پڑھنے والوں نے بے شمار تبصرے کیے۔ ان تبصروں میں کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہم نے غالباً تاریخی حقائق مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دوستوں کا خیال اپنی جگہ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حالات اسی طرح ہیں جس طرح ہم نے بیان کیے ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر میں رکاوٹ ڈالنے کے حوالے سے ہم نے قدرت اللہ شہاب کی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔ ہمارے کچھ دوستوں اور بلاگ پڑھنے والوں کی رائے یہ تھی کہ ایسا ممکن نہیں۔ ان کی تسلی کے لیے ایک بار پھر ہمیں ثبوت و شواہد پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔ اب ہم یہ پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ تقریر کے بعد محترمہ فاطمہ جناح اور زیڈ اے بخاری کے مابین ہونے والی خط و کتابت خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی جانب سے اسکندر مرزا کو معزول کرنے کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
جمیل احمد کی مرتب کردہ کتاب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح: تقاریر، پیغامات اور بیانات (1967-1947) کے صفحہ نمبر 59 اور 60 پر فاطمہ جناح اور زیڈ اے بخاری کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا متن کچھ یوں ہے۔
(مس جناح کے نام کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ مسٹر زیڈ اے بخاری کے معذرت نامے کا متن)
”میں نہایت خلوص کے ساتھ گذشتہ رات آپ کی نشری تقریر میں بہت تھوڑے سے وقت کے لیے ایک مرتبہ گڑبڑ ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ گذشتہ ہفتے کے روز ہمارے جنریٹروں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی اور ہم نے کل نیشنل ہک اپ کے دوران آٹھ بجے رات سے سوا نو بجے رات تک اپنے ٹرانسمیٹروں کو پوری بجلی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ مجھے نہایت افسوس ہے کہ ٹرانسمیٹروں کو پوری بجلی فراہم کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے اور نیتجتاً ہمارے سننے والوں اور ہمارے ٹرانسمیٹر مانیٹروں نے ہماری تیسری نشریات کے دوران میں کچھ خرابی محسوس کی۔ تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس خرابی نے آپ کی نشری تقریر کی روانی کو متاثر نہیں کیا جس کا اظہار ہمارے ریجنل اسٹیشنوں سے موصولہ رپورٹوں سے ہوتا ہے۔“
(مس جناح کے جواب کا متن)
'بحوالہ آپ کا مراسلہ نمبر پی یو جی 1(16)/ 51 مورخہ 12 ستمبر1951ء۔ گیارہ ستمبر کو آپ نے میرے براڈکاسٹ کی کاپی شام سات بجے منگوا بھیجی تھی اور آٹھ بجے شام آپ بنفس نفیس نہایت مشوش حالت میں میری رہائش گاہ پر تشریف لائے تھے اور آپ نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھ سے اپنی تقریر میں سے بعض جملے حذف کرنے کی استدعا کی تھی۔ میں نے جذبات سے بالاتر ہو کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ اگر ایک خود مختار جمہوری ملک میں کسی قسم کی آزادی اظہار نہیں ہے تو میں اپنی تقریر کو تبدیل کرنے کے بجائے اپنی تقریر سے دستبردار ہونے کو ترجیح دوں گی جو خود آپ کی فرمائش پر نشر کی جا رہی تھی۔
'معمول کے مطابق براڈکاسٹ کے ختم ہونے کے بعد آپ نے میری ریکارڈ شدہ تقریر مجھے سنوانے کے لیے کہا تھا۔ اس میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں تھی۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ اس وقت نہ تو آپ نے اور نہ آپ کے عملے کے کسی رکن نے ٹرانسمیٹروں میں کسی نقص یا خرابی کا ذکر تک کیا تھا۔ مجھے اپنے گھر واپسی پر اپنی تقریر کی براڈ کاسٹ میں خرابیوں کا پتہ چلا تھا اور یہ بات میرے لیے موجب حیرت تھی کہ یہ خرابیاں عین انہی جملوں کے وقت پیدا ہوگئی تھیں جن کو حذف کرنے کی آپ نے درخواست کی تھی۔
'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ٹرانسمیٹر نہایت مستعد اور فرماں بردار قسم کے ہیں جو آپ کی سہولت کے پیش نظر نقص پیدا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
'جن لوگوں نے میری اصل براڈکاسٹ میں رکاوٹ ڈالنے اور خرابی پیدا کرنے کی کوشش کی اور میری آواز کو لوگوں تک پہنچنے سے روکا اور جن جملوں کو انہوں نے ختم کرنے کی کوشش کی، وہ دراصل ان کی اہمیت کو اجاگر کر گئے۔ آپ نے اپنے خط میں اپنے ریجنل اسٹیشنو ں سے میری براڈ کاسٹ کی روانی کی رپورٹوں کا حوالہ دیا ہے، اگر آپ ان سے مطمئن ہوتے تو پھر کسی قسم کی معذرت کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک اس ضمن میں لوگوں کی شکایت کا تعلق ہے تو ان ناراض ہونے والوں کو معقول طور پر مطمئن کرنا آپ کا کام ہے۔ آپ کی وضاحت نہ تو تسلی بخش ہے اور نہ قائل کرنے والی۔ ایسی صورت میں معذرت اقبال جرم کا محض ایک ملائم سا اندازہے۔'
زیڈ اے بخاری ایک مایہ ناز صداکار تو تھے ہی، اس کے علاوہ ایک سخت قسم کے منتظم بھی تھے۔ وہ اپنی شخصیت کے سوا کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ شاید اسی زعم میں یا حکومت وقت کی ہدایت پر انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کو سنسر کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان کے مزاج کے حوالے سے نامور صحافی برہان الدین حسن اپنی کتاب پس پردہ کے صفحہ نمبر 36-35 پر لکھتے ہیں کہ:
'پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے دوران میں سیاسی رہنما اور ان کی جماعتیں اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں اس قدر مصرف رہیں کہ وہ ریڈیو پر حکومتی پالیسیوں یا اپنی شخصیات کی تشہیر کرنے پر توجہ نہیں دے سکیں۔ ان دنوں وزارت اطلاعات کا سربراہ بھی ایک جونیئر سرکاری ملازم ہوتا تھا جس میں نہ تو اتنی صلاحیت ہوتی تھی نہ وہ اس قدر اثر ورسوخ کا مالک ہوتا تھا کہ زیڈ اے بخاری، محمد سرفراز یا غنی اعرابی جیسے پیشہ ور افراد کو قابو کر سکتا۔
'ان دنوں یہ کہانی عام تھی کہ سندھ کے مشہور صحافی جنہیں کسی حکومت میں وزیرِ اطلاعات کے طور پر شامل کر لیا گیا تھا، ریڈیو پاکستان کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کے دورے پر آئے۔ جب وزیر ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے ملاقات کر رہے تھے تو ایک چپراسی چائے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ بخاری صاحب نے اپنی سیٹ سے ایک دم اٹھ کر چپراسی کے ہاتھ سے ٹرے لی اور بڑے احترام سے وزیر کے سامنے رکھ دی۔ وزیر بخاری صاحب سے کہنے لگے، 'ہم پرانے دوست ہیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں چونکہ وزیر بن گیا ہوں اس لیے میری خوشامد کی جائے۔' بخاری صاحب نے فوراً جواب دیا۔ ایسا جواب صرف وہی دے سکتے تھے۔ ”سر میں آپ کی خوشامد نہیں کر رہا۔ بلکہ اپنے چپراسی کو خوش کرنے کی کوشش کررہا ہوں کیوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کسی دن وہ میرا وزیر نہ بن جائے۔“'
محترمہ فاطمہ جناح نے 1958 میں اسکندر مرزا کی حکومت کے خاتمے اور جنرل ایوب کے اقتدار سنبھالنے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یقیناً ملک میں سیاسی عدم استحکام، اقربا پروری اور رشوت خوری تھی۔ ان معاملات کے سبب عوام معاشی و معاشرتی اور سماجی بد حالی کا شکار تھے۔ جمیل احمد کی کتاب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح: تقاریر، پیغامات اور بیانات (1967-1947) کے صفحہ نمبر281-280 کے مطابق 1958 کو جاری کردہ ایک بیان میں محترمہ فاطمہ جناح نے اس وقت کی ملکی صورت حال اور اسکندر مرزا کی معزولی پر کچھ ان خیالات کا اظہار کیا:
158۔ میجر جنرل اسکندر مرزا کی معزولی پر اخبارات کوبیان۔ 1958ء
'سیاسی منظر سے میجر جنرل سکندر مرزا کے چلے جانے سے پاکستانی عوام نے سکھ اور اطمینان کا سانس لیا ہے۔ گذشتہ تین سال کے دوران سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ ملک کا کوئی بھی مسئلہ حل نہ کرسکے۔ اس کے بجائے ملک میں انتشار اور افتراق کو فروغ حاصل ہوا اور ملک سیاسی اور اقتصادی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ عوام کی حیثیت ایک خاموش تماشائی کی رہ گئی تھی۔ انہیں شدید مشکلات اور ہر طرح کی سماجی برائیوں کا سامنا تھا۔
'جنرل ایوب خان کی حکومت میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا ہے۔ مسلح افواج نے سماجی برائیوں اور انتخابی بدعنوانیوں کے خاتمہ کا بیڑہ اٹھایا ہے تاکہ عوام کے اندر اعتماد، تحفظ اور استحکام کی فضا پیدا ہو اور ملک میں صورتحال معمول پر آسکے۔ مجھے امید ہے اور دعا ہے کہ خدا انہیں طاقت اور عقل دے کہ یہ لوگ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوسکیں۔ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران لوگ پر سکون اور آرام سے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مطمئن ہیں اور صورتحال کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے سامنے مقصد یہ ہے کہ ان تمام منفی قوتوں کو ختم کر دیں جو ملک پر مسلط ہیں اور ملک کو دوبارہ مستحکم حالت میں لے آئیں، تاکہ ہم صحیح جمہوریت کی طرف گامزن ہوسکیں۔ ہم سب کے سامنے یہ ماٹو ہونا چاہیے کہ خود غرضی اور ذاتی مفاد سے بالاتر رہ کر ملک کی خدمت کریں۔ اس کا زیادہ انحصار آپ پر اور آپ کے جذبہ حب الوطنی پر ہے۔
خدا نے چاہا تو یہ تا ریک دن، جلد ہی ختم ہوجائیں گے اور پاکستان کو اقوام عالم میں ویسا ہی مقام حاصل ہوگا جیسا کہ قائد اعظم نے سوچا تھا۔ آیئے ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ساتھ ایک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھیں۔'
غالباً اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کو قطعاً اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ چند برسوں بعد انہیں ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے چلائی جانی والی مہم کی قیادت کرنی ہوگی۔ ایوب خان کو بھی شاید اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح ان کے لیے کوئی بہت زیادہ مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ انہیں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا اور ایسا ہی ہوا۔ وہ صدارتی انتخابات میں کامیاب تو ہو گئے لیکن انتخابی نتائج نے انہیں حواس باختہ کردیا تھا۔ ان کی اس کیفیت کو برہان الدین حسن اپنی کتاب پس پردہ کے صفحہ نمبر56-55 پر یوں بیان کرتے ہیں:
1965ء کا صدارتی الیکشن
'ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات اور ان کے سوانح نگار الطاف گوہر نے اس وقت کا نقشہ کھینچا ہے جب منتخب صدر اپنی کامیابی کے بعد تقریر ریکارڈ کرانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ”ایوب خان کی تقریر رات کے 10 بجے نشر ہونی تھی لیکن شام کے 7 بجے ہی سے ایوب خان کو خوشامدیوں اور حاشیہ برداروں کے ہجوم نے گھیرا ہوا تھا جو سب اس بارے میں تجاویز پیش کر رہے تھے کہ صدر کو اپنی ”فاتحانہ“ تقریر میں کیا کہنا چاہیے۔ سیکریٹری اطلاعات نے صدر کے لیے تقریر پہلے ہی تیار کرلی تھی۔ ایوب خان نے جو ابھی تک حواس باختہ تھے مائیکرو فون پر کسی قسم کے جذبات کا اظہار کیے بغیر وہی تقریر پڑھی اور ان کے چہرے پر کئی گھنٹے تک پریشانی چھائی رہی۔
'یہ جان کر ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی کہ وہ شکست سے بال بال بچے ہیں اور لوگوں نے ان کی نافذ کردہ آئینی اصلاحات کو تقریباً یکسر مسترد کردیا ہے۔ کل 80 ہزار ارکان میں سے 49951 نے ایوب خان کے حق میں اور 38691 نے مادر ملت کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم مشرقی پاکستان میں یہ فرق بہت ہی معمولی تھا جہاں فاطمہ جناح نے 18434 ووٹ حاصل کیے اور ایوب خان کو 21012 ووٹ ملے۔ مغربی پاکستان کی صورتحال قدرے مختلف تھی۔ یہاں کراچی کے سوا تمام ڈویژنوں اور اضلاع میں ایوب خان کا پلڑا بھاری رہا۔'
مذکورہ تمام معلومات تاریخی حقائق پر مبنی ہیں۔ تاریخ نویسی ایک بے رحم شعبہ ہے۔ یہ آپ کو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو آپ کو چونکا دیتی ہے۔ ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکہ بند اور درباری قسم کے تاریخ دان ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اپنی سوچ کے دائرے کو محدود رکھیں۔ ایک مخصوص وقت تک تو وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ایسے مخصوص دائروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں اور جب انہیں اپنے سوالوں کا جواب نہیں ملتا تو اس کے لیے کھوجنا شروع کرتے ہیں۔ یہ ایک مثبت عمل ہے اور جاری رہنا چاہیے۔ ہمیں تاریخ کو مسخ کرنے کے بجائے اس میں پوشیدہ تلخ حقائق منظرعام پر لانے چاہیں تاکہ بحیثیت قوم اپنی درست سمت کا تعین کرسکیں۔
تبصرے (10) بند ہیں