21ویں ترمیم اورفوجی عدالتیں: درخواستیں سماعت کیلئے منظور
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کی تشکیل کے خلاف دائر درخواستوں کو سماعت کیلئے منظور کرلیا ہے۔
درخواست کی سماعت 28 جنوری سے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کرے گا۔
خیال رہے کہ پشاورکے آرمی اسکول میں گذشتہ ماہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد حکومت نے تمام پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد آئین میں 21ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔
21 ویں ترمیم میں آرمی ایکٹ 1952 میں ترامیم کے ذریعے اس کو پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 قرار دیا گیا ہے اور اس بل کی منظوری کے بعد ملک میں 2 سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کردی گی ہے۔
فوجی عدالتوں کا قیام انسداد دہشت گردی کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے جس سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے فیصلے فوری طور پر ہوں گے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش
ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت کم از کم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہو جائے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کم ازکم شہریوں کو تو بتائے کہ کالعدم تنظیمیں کون سی ہیں، شہریوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ جن کو وہ چندہ دے رہے ہیں وہ تنطیم کالعدم ہے یا نہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ مختلف تنظیموں نے تھر میں امدادی سرگرمیوں کے بھی بینرز لگا رکھے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں ہی قانون کی کتابوں میں غلطیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ نیکٹا کی ویب سائٹ بند پڑی ہے تو کسی کوانسداد دہشتگردی کا کیا پتہ چلے گا۔
انھوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کی فہرستیں کم ازکم میڈیا کو فراہم کردی جائیں اگرصحافیوں کو کالعدم تنظیموں سے متعلق پتہ ہوگا تو وہ ان کا پرچاربھی نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے دوران سول ججوں کو سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔