پیٹرول بحران: کسی کو تو جانا ہوگا
اس طرح کے حالات پیدا کرنا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
سالوں سے جاری توانائی کا بحران تو اپنی جگہ موجود ہی تھا، لیکن بدترین نااہلی، اقربا پروری، بد نظمی پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، اور مخصوص مفادات رکھنے والے گروپس کی توقعات کو پورا کر کے حکومتِ پاکستان نے اب عوام کو پیٹرول بحران کا تحفہ بھی دے ہی دیا۔
پچھلے آٹھ ہفتوں سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں۔ قیمتوں میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں تیل بہت زیادہ ہے، جبکہ خریدار بہت کم۔ تو ایک ایسے وقت میں جب تیل کی فراوانی ہے اور قیمتیں کم ہیں، تو حکومت نے پاکستانیوں کے لیے کسی نہ کسی طرح تیل کا بحران پیدا کر ہی لیا۔
آئیں اس پر کچھ غور کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ اس غور کا کچھ نتیجہ نکلے گا، کیونکہ یہ بالکل بے تکی اور ناممکن بات ہے۔
اگر نرم سے نرم الفاظ میں بھی کہا جائے، تب بھی یہ بحران نہایت ہی بے وقوفانہ ہے، اور سادہ سی سادہ چیزیں سنبھالنے میں بھی حکومتی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے بھی زیادہ بری چیز وہ بے پروائی ہے جس سے اس بحران کو ہینڈل کیا جارہا تھا اور کیا جا رہا ہے۔
پڑھیے: 'پیٹرول بحران کے جوابدہ اسحاق ڈار'
کسی دوسرے ملک میں اس وقت تک سر جوڑ لیے گئے ہوتے، یا اس بدترین بحران کو سر اٹھاتا نہ دیکھ پانے، یا اس سے نمٹنے کے لیے کچھ نہ کر پانے پر لوگوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہوتا یا معطل کر دیا گیا ہوتا۔
یہ کہنا نامعقول نہیں ہے کہ اب تک وزیرِ پیٹرولیم کو برطرف کردینا چاہیے تھا۔ اس سے ملک میں تیل کی سپلائی پر کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، لیکن اس سے لوگوں کو یہ پیغام ضرور مل جاتا کہ حکومت کو اس معاملے پر شرمندگی ہے۔
لیکن یہی تو ان کا مسئلہ ہے کہ انہیں اپنے کسی بھی کام پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ تمام بوجھ پاکستان کے لوگوں پر ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔
لیکن پاکستان کے لوگ اس سے بہتر کے مستحق ہیں۔ حکومت یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ جلد یا بدیر لوگ تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگیں گے چاہے پھر وہ کسی بھی ذریعے سے ہو۔ عوام اب یہ دیکھ دیکھ کر مکمل طور پر تھک چکے ہیں کہ کس طرح ان کے ووٹ انہیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہ نقصان پہنچائے جاتے ہیں۔
تو اگر بالکل حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی جائے، تو ملک کا جمہوری مستقبل اس وقت داؤ پر لگا ہوا ہے، اور یہ سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ سسٹم کو ایسے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ اقربا پروری کے ساتھ چلے۔ مجھے اس حقیقت سے نفرت ہے لیکن یہی حقیقت ہے۔ میں دیگر ساتھی تجزیہ نگاروں اور لکھاریوں کی طرح ایسی خیالی جنت میں نہیں رہتا جہاں ہر چیز ضوابط کے مطابق اور میرٹ پر ہوتی ہے، یا سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جیسے ممالک کا کاروبار چلانا پریشان کن ہوسکتا ہے جبکہ اخراجات بھی بڑھتے رہتے ہیں کیونکہ مخصوص مفادات والے گروپس کے لیے جگہ بنائے رکھنا لازمی ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: 'پیٹرول بحران کی وجہ اعداد و شمار میں غلفت'
لیکن اس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
سسٹم صرف سرمایہ دارانہ اقربا پروری اور ترقی کے درمیان توازن برقرار رکھنے سے ہی چل پاتا ہے۔ اور اب جب توازن ختم ہوچکا ہے، تو بھلے ہی یہ حکومت کو نقصان نہیں پہنچا رہا، لیکن یہ ملک کی جمہوریت کی جانب لڑکھڑاتی پیش قدمی میں مزید رکاوٹیں ڈالے گا۔
اسلام آباد اور لاہور سے آگے دیکھنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے گورننس میں موجود خلا بڑھتا جارہا ہے۔ اگر اپنی نااہلی سے پیدا شدہ بحران سے یہ لوگ اس طرح نمٹتے ہیں، تو آپ کی سوچ ہے کہ کسی حقیقی بحران سے کس طرح نمٹیں گے۔ ارے رکیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ بھی کس طرح ہوگا۔ یاد ہے گذشتہ مہینے جب 140 بچوں کو قتل کردیا گیا تھا؟ یاد ہے اس کے بعد کیا ہوا؟ کچھ نہیں ہوا کیونکہ حکومت میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ ہمارے دشمنوں کو ایک مضبوط پیغام دے سکے۔
حکومت تمام لوگوں کا اس پر اعتماد کھو دینے سے صرف ایک انچ دور ہے۔
جب ہمارے بچے مرے، تو انہوں نے تمام سیاستدانوں کو آل پارٹیز کانفرنس کے نام پر ایک عالیشان دعوت میں مدعو کیا۔ اور جب ملک میں پیٹرول ختم ہوگیا، تو تمام مصروفیات منسوخ کر کے یہ سوچنے بیٹھ گئے کہ 19 کروڑ لوگوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم میں ملوث وزرا کو کس طرح بچایا جائے۔
مجھے اس حکومت یا اس کے باقی رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد ختم نہ ہوجائے۔
جانیے: مسئلہ اقرباپروری کا ہے
اس حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ اب جمہوریت اور اس کے فوائد پر انگلیاں اور سوالات اٹھا رہے ہیں، جو کہ ملک کے لیے خطرناک ہے۔
ہمارے جیسے ملک میں جہاں لوگوں کی یادداشتیں انتہائی کمزور ہیں، وہاں ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے۔ تو اس لیے حکومت کو چاہیے کہ دکھاوے کے لیے ہی سہی، ذمہ دار وزیر کو برطرف کردیا جائے۔ انہیں کچھ ہفتوں بعد دوسری وزارت دے دی جائے کیونکہ تب تک یہ قوم اس سب کے بارے میں بھول چکی ہو گی۔
لیکن کم از کم معذرت خواہ رویہ تو اپنائیں۔ کم از کم شہریوں کو یہ تو دکھائیں کہ آپ کو ان کی فکر ہے، بھلے ہی پھر وہ آپ کے اپنے طرز کی گورننس جاری رکھنے کے لیے ہو۔