‘ورلڈ کپ میں سلیکشن کا سہرا راشد کے سر’
کراچی: فاسٹ باؤلر سہیل خان نے ورلڈ اسکواڈ میں اپنی حیران کن شمولیت کا سہرا قومی ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کے سر باندھ دیا ہے۔
30 سالہ کرکٹر جن کی سلیکشن کو راشد نے ’دروازہ توڑ سلیکشن‘ قرار دیا تھا، کو چیف سلیکٹر معین کی زیر سربراہی سلیکشن کمیٹی نے 30 رکنی ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست میں موجود نہ ہونے کے باوجود 15 رکنی حتمی دستے کا حصہ بنایا۔
ڈان سے خصوصی انٹرویو میں سہیل خان نے کہا کہ یہ راشد لطیف تھے جنہوں نے اتار چڑھاؤ کا شکار میرے کیریئر کی بحالی میں اہم کردار کیا۔
سہیل نے 2009 سے 2011 کے درمیان دو ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
انہوں نے کہا کہ میرے کیریئر میں راشد کا اہم کردار ہے، ان کے ہی اصرار پر میں نے گزشتہ سیزن پورٹ قاسم اتھارٹی کی ٹیم جوائن کی۔ راشد نے کہا کہ ابتدا میں صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دو لیکن اس سیزن میں انہوں نے مجھ پر خصوصی توجہ دی، انہوں نے مجھے بتایا کہ باؤلنگ کرتے ہوئے کریز کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے اور میری آؤٹ سوئنگر پر کافی کام کیا۔
’وہ نیٹ میں میرے پیچھے کھڑے ہو کر مجھے بتاتے کہ مئی گیند کا استعمال کیسے کرنا ہے اور کب ریورس سوئنگ کرنی ہے، آؤٹ سوئنگ باؤلنگ اور اس کا صحیح استعمال سکھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے باؤنسر کے استعمال کا طریقہ بھی سکھایا‘۔
مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے سہیل خان نے کہا کہ میری آؤٹ سوئنگ میں شاندار کاٹ کی بڑی وجہ راشد لطیف کی جانب سے کی جانے والی محنت ہے، اب راشد کھلے عام کہتے ہیں کہ میری آؤٹ سوئنگ گیند بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ گیند انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ باہر کی جانب نکلتی ہے۔
سہیل نے ورلڈ کپ اسکواڈ میں انتخاب کو اپنی کرکٹ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا۔
انہوں نے فرط جذبات سے کہا کہ ’جب میں نے پہلی مرتبہ اپنی ورلڈ اسکواڈ میں شمولیت کی خبر سنی تو میں دم بخود رہ گیا، یہ ایک ایسا لمحہ تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، میرے لیے یہ ایک ایسا خواب تھا جو سچ ہونے جا رہا تھا‘۔
’میرے اہل خانہ، دوست احباب اور چاہنے واے اس بات پر بہت خوش تھے، وہ خوشی سے اس حد تک پاگل ہو رہے تھے کہ مجھے انہیں کسی قسم کی ٹریٹ بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ انہوں نے گھر میں خصوصی ڈشز(بریانی) بنانے کے ساتھ ساتھ مٹھائی بانٹنے اور نمازیں پڑھ کر خود ہی میری ٹیم میں سلیکشن کی خوشیاں منانی شروع کردی تھیں۔
فاسٹ باؤلر نے کہا کہ میرے خیال میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کوئی اس خوشی کی امید بھی نہیں کرسکتا جو مجھے، میرے اہلخانہ اور دوستوں کو ورلڈ کپ اسکواڈ کے اعلان کے بعد حاصل ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سلیکٹرز نے جب اس سیز ن میں میری باؤلنگ دیکھی تو وہ کافی متاثر ہوئے، انہوں نے میری کارکردگی کو سراہا(قائد اعظم گولڈ لیگ میں 64 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب باؤلر)۔ آخری مرتبہ جب میں پاکستان کے لیے کھیل رہا تھا تو تقریباً 149 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے باؤلنگ کررہا تھا۔
’اس سیزن میں نے پورٹ قاسم اتھارٹی کے لیے گیارہ فرسٹ کلاس میچز کھیلے اور پھر ایک روزہ ٹورنامنٹ کھیلا، میں انتہائی پراعتماد ہوں کہ ورلڈ کپ سے قبل آئندہ 15 سے 20 دنوں میں اسی رفتار سے باؤلنگ کرسکوں گا‘۔
ریورس سوئنگ کی خصوصی صلاحیت کے حامل سہیل خان نے امید ظاہر کی کہ وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ناواقف کنڈیشنز میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔
سہیل خان نے کہا کہ عام طور پر محدود اوورز کی کرکٹ میں سلو گیندوں کے ساتھ ساتھریورس سوئنگ کا تجربہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ آسٹریلیا میں وکٹیں سخت ہوں گی اور اگر گیند کا ایک حصہ مستقل چکمدار رہا تو گیند کے ریورس سوئنگ ہونے کے انتہائی اچھے امکانات ہوں گے، ان دنوں دونوں اطراف سے نئی گیند کے استعمال کے باوجود اس صورتحال میں کوئی بھی گیند کو دونوں جانب سوئنگ کر سکے گا۔
فاسٹ باؤلر نے پراعتماد انداز میں کہا کہ میں اس بات سے واقف ہوں کہ نیوزی لینڈ میں گیند ریورس سوئنگ نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کی پچز اور کنڈیشنز آسٹریلیا سے خاصی مختلف ہوتی ہیں لیکن میں ہرگز پریشان نہیں کیونکہ میں گیند کو سیم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ سوئنگ اور گیند کی رفتار میں تبدیلی پر بھی انحصار کرتا ہوں۔
سہیل نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ان تسلسل سے کارکردگی کی سب سے اہم وجہ جسمانی فٹنس ہے۔
’میں اپنے کیریئر کے پہلے دن سے ہی سخت ٹریننگ کررہا ہوں، تین سال میں میری فٹنس کا لیول اس حد تک بہتر ہوا ہے کہ میں بغیر فٹنس مسائل کے تسلسل کے ساتھ باؤلنگ کر سکتا ہوں۔
غیر ملکی لیگز کی جانب سے آفرز کے حوالے سے سوال پر فاسٹ باؤلر نے کہا کہ مجھے انگلش لیگز کھیلنے کی پیشکش ملتی رہتی ہے لیکن میں ملک سے باہر نہ کھیلنے کو ترجیح دی اور یہ وقت ٹریننگ میں وقف کردیا لیکن بعد میں میچ فٹنس برقرار رکھنے کے لیے میں نے دبئی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں کھیلنا شروع کردیا، پورسٹ قاسم اتھارٹی کے کپتان خالد لطیف نے مجھے وہاں کھیلنے کی ترغیب دی۔
آخری نمبروں پر بڑے شاٹس کھیلنے کے لیے مشہور سہیل نے کہا کہ وہ بیٹنگ پر بھی سنجیدگی سے محنت کر رہے ہیں، پورٹ قاسم اتھارٹی میں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں سے رہنمائی لیتا رہتا ہوں اور خالد لطیف، شاہ زیب حسن اور خرم منظور ہر وقت میری مدد کو تیار ہرتے ہیں۔
سہیل خان سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر کے بہت بڑے شائق اور انہوں نے عظیم فاسٹ باؤلرز وسیم اکرم اور وقار یونس کو اپنا ہیرو قرار دیا۔
’جب میں بڑا ہورہاتھا تو وقار وی پہلے باؤلر تھے جنہیں میں دیکھا کرتا تھا لیکن میرے آئیڈیل شعیب اختر ہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بلے بازوں کے دل میں اپنا خوف بٹھا دیا تھا، میں انتہائی خوش قسمت ہوں کہ وقار ہمارے کوچ ہیں، میں ایک لیجنڈ سے سیکھنے کے لیے آنے والے دنوں میں ان سے مزید بات چیت کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ میرے باؤلنگ ہیروز وسیم، وقار اور شیعب کے ساتھ ساتھ عاقب جاوید بھی ہیں، میں جب میں ان کی باؤلنگ کی ویڈٰو دیکھتا ہوں تو خاصا حوصلہ ملتا ہے، اس کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتا۔ لوگ جب بھی مجھ سے بات کرتے ہیں تو مچل جانسن، ڈیل اسٹین وغیر کا ذکر کرتے ہیں لیکن صرف اپنے اصل ہیروز کے بارے میں سوچتا ہوں۔
تبصرے (1) بند ہیں