پیرس: سیاسی رسالے کے دفتر پر حملہ، 12 ہلاک
پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک مزاحیہ سیاسی رسالے کے دفتر میں فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور دس زخمی ہو گئے۔
چارلی ہیبدو نامی رسالے نے 2011 میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائربموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا جب کہ گذشتہ ہفتے اس میگزین نے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔
بی بی سی کے مطابق ہفتہ وار فکاہیہ رسالہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی اور حالات حاضرہ کی خبروں پر اپنے مزاحیہ تبصروں کی وجہ سے متنازع رہا ہے۔
``
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کے صدر فرینسکو ہالینڈ نے جائے وقوعہ کے دورے سے قبل ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فرانس کی سکیورٹی کو بڑھا دیا ہے اور ہنگامی طور پر کیبنٹ میٹنگ بھی طلب کرلی ہے۔
فرانسیسی پولیس ایک افسر کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد مسلح افراد ایک کار پر سوار ہو کر پیرس کے شمالی حصے کی جانب فرار ہوئے ہیں۔
پولیس افسر روکو کونٹینٹو کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے کسی اور مقام پر حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ سے سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاوس نے حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے سکیورٹی حکام فرانس کے ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان نے ایم ایس این بی سی ٹیلی ویژن کو بتایا ہے کہ اگر حملہ آوروں کی تعداد زیادہ ہوئی تو امریکا انہیں ڈھونڈنے کی کوشش میں فرانسیسیوں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔
اس حملے میں دیگر 20 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے چار یا پانچ افراد شدید زخمی ہیں اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
ایک عینی شاہد بینوٹ برینگر نے مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نے دو نقاب پوش افراد کو کلاشن کوف رائفلز کے ساتھ عمارت میں جاتے ہوئے دیکھا جس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔
کسی بھی گروپ یا تنظیم کی جانب سے اب تک حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
پیرس میں قائم ایک مسجد کے پیش امام حسین چلگہومی نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی نہیں ہے اور نا ہی یہ اسلام کی تعلیمات ہیں۔
انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بہت جلد فرانس دوبارہ متحد ہو جائے گا اور یہ سب اختتام پذیر ہوگا۔
ادھر برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے واقعہ کو گھناؤنا قرار دیا ہے۔ امریکا کے صدر باراک اوباما، جرمن چانسلر انجلا مارکل،عرب لیگ اور ایک الاظہر نے بھی اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
|