21 آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی و سینیٹ میں منظور
اسلام آباد: ملک میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آرمی ایکٹ اور آئین میں 21 ویں ترمیم قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں بھی متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حاضر کسی بھی رکن نے آرمی ایکٹ اور 21ویں آئینی ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کے زیر صدارت ہوا، جس میں وزیر اعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے۔
342 کے ایوان میں سے مجموعی طور پر 247 اراکین نے 21 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے تاہم جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین بھی دھاندلی کے حوالے سے جاری احتجاج کی وجہ سے اسمبلی غیر حاضر رہے۔
واضح رہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے 342 رکنی ایوان میں 228 ارکان کی حمایت کی ضرورت تھی جبکہ ایوان میں 247 اراکین موجود تھے جن میں سے کسی بھی نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔
ایوان میں 190 اراکین کا تعلق حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے جبکہ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے جو کہ عمرے کی غرض سے ملک سے باہر ہیں۔
'21ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں بھی منظور'
قومی اسمبلی میں منظور کے بعد سینیٹ نے بھی آرمی ایکٹ اور 21 ویں آئینی ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ سینیٹ میں 78 اراکین نے ان بلوں کے حق میں ووٹ دیا جب کہ ان کے خلاف کوئی بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے آئینی ترمیمی مسودے میں دہشت گردی کے ساتھ مذہب، مسلک اور فرقے کا نام شامل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ اس سے مذہب کی بدنامی ہو گی۔
اسی وجہ سے جماعت اسلامی نے آئین میں ترمیم حوالے سے بھی ایک بل جمع کروایا تھا۔
آئین میں ترمیم کے حوالے سے آنے والے اعتراضات پر حکومت نے ترمیم میں یہ بھی شامل کیاگیا کہ 2002 کے پولیٹیکل آرڈرکےتحت رجسٹرڈ جماعتیں اس ترمیم کے زمرے میں نہیں آئیں گی۔
قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر تین شقوں کی منظوری لی گئی۔
جس میں دہشت گردی کی تعریف، فوجی عدالتوں کے قیام اور ان عدالتوں کی مدت کے تعین کی شقیں شامل تھیں۔
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ ترمیم سینٹ سے منظور کی جائے گی جس کے بعد اس پر صدر پاکستان دستخط کریں گے اور یہ ترمیم ملک میں لاگو ہو جائی گی۔
21 ویں آئینی ترمیم میں پہلے شق وار منظوری لی گئی بعد ازاں اس کی منظوری کے لیے دو علیحدہ چیمبر بنائے گئے جس میں ترمیم کے حامی اور مخالف ان چیمبرز میں جانا تھا لیکن حمایت کے لیے بنائے گئے چیمبر میں تو اراکین گئے لیکن مخالفت کے لیے بنایا گیا چیمبر خالی رہا۔
21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں آرمی ترمیم ایکٹ 2015 پیش کیا گیا جس کی شق وار منظوری لی گئی۔
اجلاس کے آغاز میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید کا خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خاتمے پر متفق ہیں، طالب علم مدرسے کا ہو یا کالج کا، دین کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بے دردی سے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، دہشت گرد اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں، فوجی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے پیا جارہاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ مذہب کے خلاف نہیں ہے، آئین میں واضح ہے کہ اسلام ہی ہمارا دین ہے، آرمی ایکٹ دین اوراسلام کواستعمال کرنےوالےدہشت گردوں کےخلاف استعمال ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یقین ہےکہ فوجی عدالتیں آئین کی پاسداری کریں گی، دہشت گردمدرسےکاہویاگرامراسکول کا،کسی سےرعایت نہیں ہونی چاہیے، دہشت گردوں کےخلاف کارروائی میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے،کچھ فیصلے وقت کےساتھ کیے جاتےہیں، دین کےاحکامات کےخلاف کوئی قانون پاس کرنےکاسوچنابھی گناہ ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیر اعظم ہاوس میں نواز شریف نے تمام اراکین کو ناشتے پر مدعو کیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں