• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

کنٹریکٹ ورکرز کی بدقسمتی

شائع January 8, 2015
ملازمین کی کنٹریکٹ بنیاد پر بھرتی کے پیچھے آجر کی زیادہ منافع اور دولت کے حصول کی لالچ چھپی ہوئی ہوتی ہے۔
ملازمین کی کنٹریکٹ بنیاد پر بھرتی کے پیچھے آجر کی زیادہ منافع اور دولت کے حصول کی لالچ چھپی ہوئی ہوتی ہے۔

لیبر مارکیٹ میں کنٹریکٹ پر کام دینا اب عالمی سطح پر بڑھتا رجحان ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق کم پیداواری لاگت اور بہتر پیداوار کنٹریکٹ لیبر کی بنیادی وجوہات ہیں جو دولت کے انبار لگانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کنٹریکٹ بنیاد پر کام کی فراہمی کے پیچھے آجر کا زیادہ منافع، زیادہ دولت کے حصول کا مقصد یا لالچ ہوتی ہے۔ یہ حیرت کا باعث نہیں کہ کنٹریکٹ ورک ایسا پریشان کن ہے کہ عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) تک نے اسے پیچیدگیوں اور 'تصوراتی' مسائل سے بھرپور پایا ہے۔

آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر کی تعریف اور اس کی حدود کی وضاحت کرنے میں شکست تسلیم کرلی ہے۔ کنٹریکٹ لیبر کا معاملہ 1950 کے بعد سے آئی ایل او کے متعدد اجلاسوں میں زیر بحث آچکا ہے اور 48 سال بعد جب 1998 میں آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر پر معاہدے کا مجوزہ مسودہ پیش کیا تو اسے دنیا کے کسی بھی ملک نے قبول نہیں کیا۔

اس کے بعد 2006 میں آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر پر معاہدے کا خیال ترک کردیا اور اس کے بجائے 'پیشہ وارانہ تعلقات سفارشات' یا R198 پیش کیا جس کے مسودے میں کنٹریکٹ لیبر کے لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔ مگر ابھی تک کسی بھی ملک نے R198 کی توثیق نہیں کی ہے۔

روایتی طور پر کنٹریکٹ لیبر کی تعریف ایک تکونی تعلق کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔ اس میں آجر کنٹریکٹ لیبر کی خدمات تیسرے فریق جسے کنٹریکٹر کہا جاتا ہے یا ایجنسی کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ ان ورکرز کے تحفظ کے لیے آئی ایل او کے نجی ملازمت ایجنسیز کے حوالے سے کنونشن 181 کو 1997 میں لاگو کیا گیا۔ پاکستان نے اس کنونشن کی اب تک توثیق نہیں کی جبکہ آئی ایل او کے 185 میں سے صرف 28 رکن ممالک نے ہی اس کی توثیق کی ہے۔ تاہم آج سرکاری اور نجی شعبوں کی انتظامیہ براہ راست ورکرز کو کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے، جس سے معمول کی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین کو پر ہونے والے اخراجات بچائے جاسکتے ہیں۔

پاکستان میں آجر سوشل سیکیورٹی، پروویڈینٹ فنڈ، پنشن، گروپ انشورنس، حادثے یا موت کی صورت میں زرتلافی، دورانِ زچگی اور تعلیمی رعایتیں اور فوائد کنٹریکٹ پر ورکرز کی بھرتی کر کے بچا لیتے ہیں۔ 1992 میں کنٹریکٹ لیبر پر قومی سیمینار میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عوامی اور نجی شعبہ دونوں جاب کنٹریکٹ ایجنسیوں پر سالانہ پندرہ کروڑ خرچ کرتے ہیں۔ اگر انتظامیہ باقاعدہ ملازمین کو بھرتی کرے تو پیداواری لاگت تین سے چار گنا تک بڑھ سکتی ہے۔

حالیہ برسوں میں سرکاری شعبے کے کنٹریکٹ ملازمین نے کنٹریکٹ ورک کی غیرمنصفانہ فطرت پر احتجاج کیا۔ اس کی ایک مثال پنجاب کانسٹیبلری کے پولیس اہلکاروں کی ہے جو کچھ روز پہلے لاہور کی گلیوں میں احتجاج کر رہے تھے۔ ان ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو 2012 میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر پولیس فورس کا حصہ بنایا گیا تھا اور اب تیس ورکرز کے کنٹریکٹس منسوخ کردیے گئے ہیں۔ ان کو مالی فوائد ملنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ان کی ملازمت کا دورانیہ بہت کم تھا۔

ایسے بھی واقعات سامنے آچکے ہیں جن کے مطابق سرکاری اداروں میں دس سے بیس سال تک کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل نہیں کیا گیا جس کے بعد انہوں نے قانونی راستہ اپنایا اور اپنا حق جیت لیا۔ اس کی ایک مثال سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے جو پنجاب کے کمیونیکشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے متعدد ملازمین سے متعلق ہے، جو اس ادارے میں 1998 سے کام کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان ملازمین کو مستقل قرار دیا۔

اسی طرح ایک اور قابل ذکر مثال ملک میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہے جنھیں حکومتی قومی پروگرام میں 1994 میں معمولی معاوضہ یعنی ڈھائی ہزار روپے فی مہینہ کی اجرت میں شامل کیا گیا۔ یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز 2008 میں اجرتوں میں اضافے اور ملازمتوں کو مستقل کرنے کے مطالبات کے ساتھ گلیوں میں نکل آئیں۔

سپریم کورٹ نے 2010 میں حکومت کو کم از کم اجرت کے قانون کے اطلاق کا حکم دیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مستقل کرنے کا مطالبہ سندھ حکومت نے ستمبر 2013 اور پنجاب نے ستمبر 2014 میں تسلیم کرلیا۔

فیکٹری ایکٹ 1934 میں 'ورکرز' کی تعریف میں ہر وہ فرد شامل ہے جسے براہ راست یا کسی ایجنسی کے ذریعے ملازم رکھا گیا ہو، اور اس طرح ان دونوں کیٹیگریز کو یکساں استحقاق حاصل ہیں۔ پاکستان کا ایک اور اہم لیبر قانون انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ آرڈینینس 1968 ہے جس میں ورکرز کی چھ درجہ بندیاں کی گئی ہیں: مستقل، آزمائشی بنیادوں پر کام کرنے والے، متبادل، عارضی، ٹرینی یا اپرینٹس اور کنٹریکٹ ورکرز۔

تمام ملازمین بشمول کنٹریکٹ ورکرز اس قانون کے تحت ملازمت کے فوائد جیسے سوشل سکیورٹی، یونین سازی، کم از کم اجرت، اوور ٹائم، لازمی تعطیلات اور گروپ انشورنس کے حقدار ہیں۔ بدقسمتی سے ورکرز کو کوئی کارخانہ بھرتی کرے یا انتظامیہ، کسی ایجنسی کے ذریعے یا براہ راست انہیں ورکرز قرار نہیں دیا جاتا اور ان کا وجود کہیں نہیں ہوتا۔

کنٹریکٹ ورکرز کے تحفظ کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کنٹریکٹ ورکرز کی بھرتی کنٹریکٹ لیبر ایکٹ 1970 کے تحت ہوتی ہے جس میں کم از کم اجرت، صحت و تحفظ اور کچھ انشورنس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے مگر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ہندوستان میں بھی زمینی صورتحال پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔

کیا یہاں کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے؟ مناسب قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر سخت عملدرآمد اور اچھے طرز حکمرانی کی بھی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط لیبر تحریک ہی ورکرز کے تحفظ کی ڈھال اور آجر کو منافع کی ہوس میں کمی لانے پر مجبور کرسکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

لکھاری پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے تعلق رکھتی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 جنوری 2014 کو شائع ہوا۔

زینت حسام
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jan 10, 2015 11:19pm
کانٹریکٹ مزدوروں کی حالت پر میرا شعر ہے: اس کے نخرے سو زیادہ، لیک یہ تو دیکھیے + جب بھی کہا اس نے کہ آجا، ہم مہیا ہوگئے۔
Umer Cheema Jan 12, 2015 04:04pm
every where contractual employees are paid higher at least twice than regular, but in Pakistan . . .  , because it is not companies it is us who let them do this with us. Has any one heard any case registered against any company in labor courts for any unjustified firing or promotions from a low level employee . . . by the way is there any website that can tell labour laws or rights of labour to these poor mazdoor guys, any awareness campaign that was ever run, any workshop that was ever conducted in any factory or office to tell the rights of workers over there by any NGO or any other institute. . . sab miley huye hein
Umer Cheema Jan 12, 2015 04:20pm
Everywhere contractual employees are paid higher at least twice than regular, but in Pakistan . . . because it is not companies, it is us who let them do unfair with us. Has any one ever heard any case registered against any company in labor courts for any unjustified firing or promotions by a low level employee, even employees do not know what their rights are, who know the HR policies of companies operating in our country, who is keeping check on these policies, who is checking if all the employees are given their contracts along with the copy of HR policy, who is checking that these policies are aligned with labor rights and being practiced, . . . is there at least any website that can tell labor laws or rights of labor to poor guys on government level, any awareness campaign that was ever run, any workshop that was ever conducted in any factory or office to tell the rights of workers over there by any NGO,. . . sab miley huge hein . . .kya NGOs Kya media kya sarkaar, Kya aap kya hamm . . . and it will remain same until our labor does not get educated.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024