کنٹریکٹ ورکرز کی بدقسمتی
لیبر مارکیٹ میں کنٹریکٹ پر کام دینا اب عالمی سطح پر بڑھتا رجحان ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق کم پیداواری لاگت اور بہتر پیداوار کنٹریکٹ لیبر کی بنیادی وجوہات ہیں جو دولت کے انبار لگانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کنٹریکٹ بنیاد پر کام کی فراہمی کے پیچھے آجر کا زیادہ منافع، زیادہ دولت کے حصول کا مقصد یا لالچ ہوتی ہے۔ یہ حیرت کا باعث نہیں کہ کنٹریکٹ ورک ایسا پریشان کن ہے کہ عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) تک نے اسے پیچیدگیوں اور 'تصوراتی' مسائل سے بھرپور پایا ہے۔
آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر کی تعریف اور اس کی حدود کی وضاحت کرنے میں شکست تسلیم کرلی ہے۔ کنٹریکٹ لیبر کا معاملہ 1950 کے بعد سے آئی ایل او کے متعدد اجلاسوں میں زیر بحث آچکا ہے اور 48 سال بعد جب 1998 میں آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر پر معاہدے کا مجوزہ مسودہ پیش کیا تو اسے دنیا کے کسی بھی ملک نے قبول نہیں کیا۔
اس کے بعد 2006 میں آئی ایل او نے کنٹریکٹ لیبر پر معاہدے کا خیال ترک کردیا اور اس کے بجائے 'پیشہ وارانہ تعلقات سفارشات' یا R198 پیش کیا جس کے مسودے میں کنٹریکٹ لیبر کے لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔ مگر ابھی تک کسی بھی ملک نے R198 کی توثیق نہیں کی ہے۔
روایتی طور پر کنٹریکٹ لیبر کی تعریف ایک تکونی تعلق کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔ اس میں آجر کنٹریکٹ لیبر کی خدمات تیسرے فریق جسے کنٹریکٹر کہا جاتا ہے یا ایجنسی کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ ان ورکرز کے تحفظ کے لیے آئی ایل او کے نجی ملازمت ایجنسیز کے حوالے سے کنونشن 181 کو 1997 میں لاگو کیا گیا۔ پاکستان نے اس کنونشن کی اب تک توثیق نہیں کی جبکہ آئی ایل او کے 185 میں سے صرف 28 رکن ممالک نے ہی اس کی توثیق کی ہے۔ تاہم آج سرکاری اور نجی شعبوں کی انتظامیہ براہ راست ورکرز کو کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کررہی ہے، جس سے معمول کی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین کو پر ہونے والے اخراجات بچائے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں آجر سوشل سیکیورٹی، پروویڈینٹ فنڈ، پنشن، گروپ انشورنس، حادثے یا موت کی صورت میں زرتلافی، دورانِ زچگی اور تعلیمی رعایتیں اور فوائد کنٹریکٹ پر ورکرز کی بھرتی کر کے بچا لیتے ہیں۔ 1992 میں کنٹریکٹ لیبر پر قومی سیمینار میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق عوامی اور نجی شعبہ دونوں جاب کنٹریکٹ ایجنسیوں پر سالانہ پندرہ کروڑ خرچ کرتے ہیں۔ اگر انتظامیہ باقاعدہ ملازمین کو بھرتی کرے تو پیداواری لاگت تین سے چار گنا تک بڑھ سکتی ہے۔
حالیہ برسوں میں سرکاری شعبے کے کنٹریکٹ ملازمین نے کنٹریکٹ ورک کی غیرمنصفانہ فطرت پر احتجاج کیا۔ اس کی ایک مثال پنجاب کانسٹیبلری کے پولیس اہلکاروں کی ہے جو کچھ روز پہلے لاہور کی گلیوں میں احتجاج کر رہے تھے۔ ان ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو 2012 میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر پولیس فورس کا حصہ بنایا گیا تھا اور اب تیس ورکرز کے کنٹریکٹس منسوخ کردیے گئے ہیں۔ ان کو مالی فوائد ملنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ان کی ملازمت کا دورانیہ بہت کم تھا۔
ایسے بھی واقعات سامنے آچکے ہیں جن کے مطابق سرکاری اداروں میں دس سے بیس سال تک کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل نہیں کیا گیا جس کے بعد انہوں نے قانونی راستہ اپنایا اور اپنا حق جیت لیا۔ اس کی ایک مثال سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے جو پنجاب کے کمیونیکشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے متعدد ملازمین سے متعلق ہے، جو اس ادارے میں 1998 سے کام کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان ملازمین کو مستقل قرار دیا۔
اسی طرح ایک اور قابل ذکر مثال ملک میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہے جنھیں حکومتی قومی پروگرام میں 1994 میں معمولی معاوضہ یعنی ڈھائی ہزار روپے فی مہینہ کی اجرت میں شامل کیا گیا۔ یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز 2008 میں اجرتوں میں اضافے اور ملازمتوں کو مستقل کرنے کے مطالبات کے ساتھ گلیوں میں نکل آئیں۔
سپریم کورٹ نے 2010 میں حکومت کو کم از کم اجرت کے قانون کے اطلاق کا حکم دیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا مستقل کرنے کا مطالبہ سندھ حکومت نے ستمبر 2013 اور پنجاب نے ستمبر 2014 میں تسلیم کرلیا۔
فیکٹری ایکٹ 1934 میں 'ورکرز' کی تعریف میں ہر وہ فرد شامل ہے جسے براہ راست یا کسی ایجنسی کے ذریعے ملازم رکھا گیا ہو، اور اس طرح ان دونوں کیٹیگریز کو یکساں استحقاق حاصل ہیں۔ پاکستان کا ایک اور اہم لیبر قانون انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ آرڈینینس 1968 ہے جس میں ورکرز کی چھ درجہ بندیاں کی گئی ہیں: مستقل، آزمائشی بنیادوں پر کام کرنے والے، متبادل، عارضی، ٹرینی یا اپرینٹس اور کنٹریکٹ ورکرز۔
تمام ملازمین بشمول کنٹریکٹ ورکرز اس قانون کے تحت ملازمت کے فوائد جیسے سوشل سکیورٹی، یونین سازی، کم از کم اجرت، اوور ٹائم، لازمی تعطیلات اور گروپ انشورنس کے حقدار ہیں۔ بدقسمتی سے ورکرز کو کوئی کارخانہ بھرتی کرے یا انتظامیہ، کسی ایجنسی کے ذریعے یا براہ راست انہیں ورکرز قرار نہیں دیا جاتا اور ان کا وجود کہیں نہیں ہوتا۔
کنٹریکٹ ورکرز کے تحفظ کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کنٹریکٹ ورکرز کی بھرتی کنٹریکٹ لیبر ایکٹ 1970 کے تحت ہوتی ہے جس میں کم از کم اجرت، صحت و تحفظ اور کچھ انشورنس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے مگر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ہندوستان میں بھی زمینی صورتحال پاکستان سے ملتی جلتی ہے۔
کیا یہاں کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے؟ مناسب قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس پر سخت عملدرآمد اور اچھے طرز حکمرانی کی بھی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط لیبر تحریک ہی ورکرز کے تحفظ کی ڈھال اور آجر کو منافع کی ہوس میں کمی لانے پر مجبور کرسکتی ہے۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے تعلق رکھتی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 جنوری 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں