فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش
اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت میں قوی اسمبلی اسپیکر ایاز صادق کی صدارت میں کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں 1973 کے آئین میں 21 ویں ترمیم کا بل پیش کیا گیا۔
آئین میں ترمیم کا بل وفاقی وزیر قانون و اطلاعات پرویز رشید نے پیش کیا۔
21 ویں ترمیم میں آرمی ایکٹ 1952 میں ترامیم کے ذریعے اس کو پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 قرار دیا گیا۔
واضح رہے کہ اس بل کی منظوری کے ذریعے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی۔
مزیدپڑھیں : فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق ہو گیا
فوجی عدالتوں کا قیام انسداد دہشت گردی کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے جس سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے فیصلے فوری طور پر ہوں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر دفاع خواجہ سعد رفیق سمیت وزراٗ اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں : فوج’ قانونی جنگ‘ کیلئے بھی تیار
اجلاس نہایت مختصر دورانیے کا رہا جس میں صرف بل پیش کیے گئے جس کے بعد اجلاس پیر کی شام تک ملتوی کر دیا گیا۔
پیر کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل سینیٹ میں چلا جائے گا جہاں سے منظوری ہونے پر اس پر صدر پاکستان دستخط کریں گے جس سے 21 ویں ترمیم ملک میں لاگو ہو جائے گی۔
سپریم کورٹ میں درخواست : ‘‘فوجی عدالتوں کا قیام آئینی قرار دیا جائے’’
قومی اسمبلی میں 342 میں 228 ارکان اور سینیٹ کے 104 میں سے 70 ارکان کی حمایت سے 21ویں ترمیم منظور ہو سکے گی۔
دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی کاروائیوں کو تحفظ دینے کے لئے 21 ائینی ترمیمی بل اور ارمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 قومی اسمبلی میں پیش کردیئے گئے۔
ان ترامیم سے مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکے گی۔
وفاقی حکومت کی منظوری سے سول عدالتوں میں دہشت گردی کے زیر سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں منتقل کیے جا سکیں گے۔
• پاکستان کے خلاف جنگ
• فوج پر حملہ
• اغوا برائے تاوان
• غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت
• مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانا
• سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ
• دھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے جیسے جرائم پر مقدمات فوجی عدالت منتقل ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہشت گردوں کے حملے بعد سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کر دیا گیا جبکہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو فوری سزاوں کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث کا آغاز ہوا تھا جس پر سیاسی جماعتوں میں کافی حد تک اتفاق ہو گیا ہے جبکہ اس پر مزید بحث کا بھی امکان ہے۔