بیٹا آپ بھی تو یہی کرتے ہو!

شائع December 27, 2014

بعض اوقات ہمیں زندگی میں ایسے واقعات کے مشاہدے کا موقع ملتا ہے جو بظاہر تو ایک انفرادی عمل لگتا ہے لکن درحقیقت پوری سوسائٹی میں رائج رجحان کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

طالب علمی کے زمانے میں ایسے ہی ایک مشاہدے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن میں کوچنگ جانے کے لیے فلیٹس کے باہر کھڑی تھی جب پڑوس میں رہنے والی خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ وارد ہوئیں۔ خاتون کے پیچھے پیچھے انہی کے بیٹے کا ہم عمر ایک بچہ آیا اور خاتون سے بولا، 'آنٹی، ذیشان روز میری سائیکل گرا دیتا ہے۔' آنٹی نے لاپرواہی کے ساتھ بچے کی جانب دیکھا اور فرمایا، 'کوئی بات نہیں بیٹا، آپ بھی تو یہی کرتے ہو۔' یہ جواب دے کر خود خاتون خراماں خراماں اپنے لخت جگر کے ساتھ چلتی بنیں اور بیچارہ علی، شاہد یا نامعلوم کون تھا محض منہ دیکھتا رہ گیا۔ ہماری سوسائٹی ایسے بہت سے ذیشانوں کے امی ابّووں سے بھری پڑی ہے جو اپنی اولاد کی غلطیاں جائز ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی خامیوں کو بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔

چودہ دسمبر کی رات انڈیا کے خلاف پاکستانی ہاکی ٹیم کی جیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر اتوار کو دن بھر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر رونا مچا رہا۔ پاکستانی ٹیم کے چاہنے والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر انڈین کھلاڑیوں کی ایسی تصویریں اور خبریں برآمد کر رہے ہیں جن میں انہیں قابل اعتراض اشارے کرتے دکھایا گیا تاکہ قومی ہاکی ٹیم کی جانب سے کی جانے والی حرکت کو جائز قرار دیا جاسکے۔ اس وقت اکثریت پاکستانی عوام کی حالت ٹھیک اس محبّت کی ماری ماں جیسی تھی جو اپنے بچے کی شرارتوں پر پردہ دوسروں کی اولاد میں کیڑے نکال کر ڈالتی ہے۔ اس کوشش میں وہ ان ہم وطنوں سے بھی لڑ پڑے جو ٹیم کی قابل اعتراض حرکت کی مذمّت کر رہے تھے۔

عذر خواہوں کا کہنا تھا کہ چونکہ انڈین کھلاڑی بھی ایسی قابل اعتراض حرکتیں کر چکے ہیں تو انڈیا کا اعتراض کرنا غلط ہے۔ دوسرا، انڈین تماشائی مسلسل پاکستانی ٹیم کو اکسا رہے تھے جس کی بنا پر یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔

اب میرے دوستو عرض یہ ہے کہ اگر انڈین کھلاڑیوں میں اخلاقیات کی کمی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہمارے کھلاڑی بھی انہی کی سطح پر اتر آئیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ بیرون ملک جا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کھلاڑی تہذیب سے بالکل ناآشنا ہیں؟

کیا یہ ضروری ہے کہ اگر مخالف ملک میں اسپورٹس مین سپرٹ کا فقدان ہے تو ہماری ٹیم بھی ویسا ہی رویہ اختیار کرے؟ اور مزے کی بات وہ بھی میچ جیتنے کے بعد..! کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ طوفانِ بدتمیزی برپا کرنے کے بجائے ایک وکٹری سائن بنا کر تماشائیوں کا منہ بند کر دیا جاتا؟ ویسے بھی مخالف ٹیم کو ہرا دینا ہی ایک منہ توڑ جواب تھا، اور اس پر غیرمہذب اشاروں کا تڑکا لگانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔

اگر پاکستانی ٹیم اس وقت جوش کے بجائے ہوش سے کام لیتی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی تو اگلا پورا دن پاکستانی قوم خفت مٹانے کے لیے بھانت بھانت کی دلیلیں پیش کرنے کے بجائے جیت کی خوشیاں منا رہی ہوتی۔ جیتنے والی ٹیم کے والدین بھی جھینپے انداز میں انٹرویو دینے کے بجائے سینہ چوڑا کرکے کیمرے کی آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کر رہے ہوتے۔ میڈیا اس افسوسناک واقعہ پر انٹ شنٹ تبصرے دینے کے بجائے پاکستانی ہاکی ٹیم کی یادگار کامیابی پر پروگرام پیش کر رہا ہوتا۔

پاکستانی کھلاڑی جوش و جذبات میں یہ بھول گئے کہ کھلاڑی ایک ملک کا سفیر ہوتا ہے، جس کا کام بیرون ملک اپنے وطن کا امیج بہتر بنانا ہوتا ہے ناکہ اسے ایک بدتہذیب قوم کے طور پر پیش کرنا۔ جب ٹیم میدان میں اترتی ہے تو کیمرے اور لوگوں کی نظر تماشائیوں پر نہیں کھلاڑیوں پر ہوتی ہے اور ان کی ایک ایک حرکت اور تاثرات کو نوٹ کیا جاتا ہے۔

اپنی حرکت سے گرین شرٹس نے پوری قوم کے ساتھ ساتھ اپنے محترم کوچ کو بھی شرمندہ کیا۔ شہناز شیخ صاحب کو نہ صرف معافی نامہ لکھنا پڑا بلکہ اسٹیڈیم میں ہاتھوں میں پھول لے کر اپنا تماشا بھی بنوانا پڑا۔ یہ سب واقعی افسوسناک ہے اور اگر غور کیا جائے تو ایک حد تک خطرناک بھی۔

پاکستان اور انڈیا دونوں ہی کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے لیے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔ دونوں ہی ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے مواقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور مانیں یا نہ مانیں اس بار سراسر پہل ہماری جانب سے ہوئی ہے۔ ہم نے ہی انڈیا کو ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور اپنا اثر و رسوخ ایف آئی ایچ پر استعمال کرنے کے لیے موقع دیا ورنہ انڈیا کے پاس کوئی اور جواز نہ تھا۔

ہم چاہے لاکھ یہ کہہ لیں کہ انڈیا کو پاکستانی جیت ہضم نہیں ہوئی یا انڈیا ہار ماننے کو تیار نہیں لیکن سچ یہی ہے کہ اپنی کشتی میں چھید پاکستانی ٹیم نے خود کیا۔ اس واقعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے خود پاکستانی ٹیم بھی دباؤ کا شکار ہوگئی، جرمنی کے ساتھ فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم میں حکمت عملی کی سخت کمی دیکھنے میں آئی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کھلاڑیوں کا دھیان کہیں اور ہے، اور کھیل میں مشاق ہونے کے باوجود وہ دل جمعی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہے۔

ممکن ہے بہت سے ہم وطنوں کو میری بات سے اتفاق نہ ہو۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ممتا کی ماری ماں کو اپنا بچہ ہر حال میں معصوم ہی لگتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیم کے اس ایکشن کو معافی تلافی اور پابندی کے بعد بھلا دیے جانے کے بجائے اس واقعے کو مثال بنا کر دیگر کھلاڑیوں کی تربیت کی جائے، تاکہ مستقبل میں اس طرح کی خفت اور شرمندگی سے بچا جاسکے۔ کیونکہ میچ جیتنے میں تو سالوں کی ٹریننگ اور محنت لگتی ہے، لیکن ایسی کسی بھی حرکت سے جیتا ہوا میچ ہارنا صرف کچھ سیکنڈ کی بات ہے۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Faheem Dec 27, 2014 05:21pm
They have no issues while allowing semi naked women to dance after every boundary, have issues with men removing shirts…
zeeshan Dec 28, 2014 10:17am
I agree. There is a definite need to evolve. We at this point of history can only change the perceptions through out r right deeds. No two wrongs make it right
zeeshan Dec 28, 2014 10:18am
i agree
Ali Tahir Dec 30, 2014 06:06pm
Nahid...You are absolutely right and I totally agreed with your points.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025