• KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am
  • KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am

ایک اور تاریخی خون ریزی

شائع December 17, 2014
طالبان حملے میں جاں بحق ہونے والے بچے کی لاش پشاور کے ایک ہسپتال میں رکھی ہے۔ منگل، 16 دسمبر 2014 — اے پی
طالبان حملے میں جاں بحق ہونے والے بچے کی لاش پشاور کے ایک ہسپتال میں رکھی ہے۔ منگل، 16 دسمبر 2014 — اے پی

یہ حملہ اس قدر خوفناک اور اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ ذہن اب تک اسے قبول کرنے سے انکاری ہے۔ بے یار و مددگار بچوں کو دہشتگردوں نے منظم اور بے رحمانہ انداز میں قتل کیا تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بچے قتل کیے جاسکیں۔

گذشتہ روز جب مرنے والے بچوں کی تعداد میں ہر منٹ کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا، تو پورا ملک صدمے کی حالت میں تھا۔ شروع شروع میں کچھ لاشیں، خون آلود یونیفارم، پھر مزید لاشیں، اور پھر اتنی زیادہ کہ گننا ہی شرمناک لگنے لگا۔

پشاور پہلے بھی خوفناک حالات سے گزر چکا ہے، لیکن کل وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک اسکول میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی، اس کا مقابلہ کسی بھی واقعے سے نہیں کیا جاسکتا۔ دہشتگردوں نے ایسے ٹارگٹ کا انتخاب کیا، جس سے پورے پاکستان کو خوف میں مبتلا کیا جاسکتا تھا۔ اسکول کے معصوم بچے، بے یار و مددگار، اور آسان ہدف، جن کی اموات سے پاکستان کو ایسا شدید نفسیاتی دھچکا لگا ہے کہ اس کے اثرات سے نکلنے میں طویل عرصہ لگے گا، اگر نکل سکے تو۔

اس قتلِ عام کے فوری بعد مکمل توجہ کا مرکز مرنے والوں کے لواحقین، بچ جانے والے زخمیوں، اور ان معصوم بچوں کو ہونا چاہیے جنہوں نے یہ پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور جس کی خوفناک جھلکیاں انہیں ساری زندگی برے خواب کی طرح ستاتے رہیں گی۔

بھلے ہی ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے تشدد میں جکڑا ہوا ہے، اور عسکریت پسندوں کے حملے معمول بن چکے ہیں، لیکن کل کے سانحے کی شدت ریاست کے ہر ادارے اور پورے معاشرے سے متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی غیر معمولی کوششوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔

جو بچ گئے ہیں، ان کے جسمانی اور نفسیاتی زخموں کے لیے ریاست بہترین طبی امداد یقینی بنا سکتی ہے۔ زیادہ تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ ٹی وی کیمروں کے دور جاتے ہی متاثرین کو مل رہی توجہ بتدریج کم ہوجاتی ہے۔ ایسا اس دفعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

مرنے والوں کے لواحقین کے لیے ریاست یہ کرسکتی ہے کہ ان کی قربانیوں کا احترام کرے، اور ان کو شہدا پیکج اور مالی امداد سے بڑھ کر اعزازات دے۔ معاشرے اور میڈیا پر بھی اس بات کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ اس بار ریاست پہلے سے زیادہ اقدامات کرے۔

اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مشکل سوالات پوچھے جائیں اور ان کے جوابات ڈھونڈے جائیں۔ اسکول غیر محفوظ ہیں، لیکن اگر حد سے زیادہ سکیورٹی بڑھا دی جائے، تو لوگوں کے لیے اسکول تک رسائی میں مشکلات ہوسکتی ہیں، اور ایک حد کے بعد سیکورٹی اور رسائی میں سے کسی ایک پر کمپرومائز کرنا ہوگا۔ لیکن غیر محفوظ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اتنے وسیع پیمانے پر قتلِ عام اتنی آسانی سے ہونے دیا جائے۔

انٹیلیجنس کہاں تھی؟ ملٹری نے حالیہ کچھ مہینوں سے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف انٹیلیجنس کی بنیاد پر آپریشن کر رہی ہے، لیکن یہ ایک ایسے شہر اور ایک ایسے علاقے میں انٹیلیجنس کی بدترین ناکامی تھی، جسے ہر صورت سیکیورٹی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہونا چاہیے تھا۔

اس کے بعد دہشتگردوں کو پکڑنے یا مار ڈالنے کے لیے کیے گئے آپریشن کا مسئلہ ہے۔ آپریشن کی طوالت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ آپریشن کمانڈرز کو اسکول کے نقشے تک فوری رسائی حاصل نہیں تھی، اور اس حوالے سے کوئی مستقل ریسکیو پلان موجود نہیں تھا۔

یہ بات یقینی ہے کہ آرمی پبلک اسکولز خطرے کی اتنی زد میں تو ہوتے ہیں، کہ اس طرح کے کسی بھی حملے سے نمٹنے کے لیے پیشگی پلاننگ کی جائے۔ کیا یہ پلان موجود تھا؟ کیا بچوں کو ایسی صورتحال کے لیے کوئی ڈرل پریکٹس کرائی گئی تھیں؟ پلاننگ کے لیے کون ذمہ دار تھا؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا ناکامی کا پتہ لگایا جاسکے گا، احتساب ہوگا، اور مستقبل میں دفاع مضبوط کیا جائے گا؟ سوالات ہمیشہ یہی ہوتے ہیں، لیکن جوابات کا ملنا مشکل نظر آتا ہے۔

کل کے سانحے پر سوالات نہ ختم ہونے والے ہیں، اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن ریاست کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے بارے میں قابلیت اور چاہ کے بارے میں کیا کہیں؟ اس قدر بھیانک حملے کے بعد دہشتگردی کو کچل دینے کی آوازیں بہت ہی بے معنی ہیں۔

اس طرح کے واقعات کے بعد لڑنے کی چاہ تو جنم لے سکتی ہے، لیکن حکمتِ عملی پیدا نہیں ہوسکتی۔ فاٹا میں فوجی آپریشن اور دوسرے شہروں میں انسدادِ دہشتگردی آپریشنز کا فائدہ تب تک نہیں ہوگا جب تک عسکریت پسندی کی نظریاتی جڑوں کو نہیں کاٹا جاتا، اور معاشرے تک ان کی رسائی پر ضرب نہیں لگائی جاتی۔

اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عسکریت پسندی کو صرف قومی سطح پر شکست نہیں دی جاسکتی۔ عسکریت پسندی پورے خطے کا مسئلہ ہے، اور جب تک اس سے اسی طرح نہیں نمٹا جاتا، تب تک قتل و غارت کا یہ چکر ایسے ہی چلتا رہے گا۔ شاید شروعاتی نقطہ یہی ہو کہ ریاست اس بات کو تسلیم کرے کہ اس کے پاس عسکریت پسندی سے مکمل طور پر نمٹنے کی حکمتِ عملی اور پلان نہیں ہے۔ لیکن اگر اس بات کو تسلیم نہ کیا گیا تو اس سے بھی زیادہ گھناؤنے واقعات ہوتے رہیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

NOUMAN FAROKI Dec 18, 2014 08:02pm
Masla to yahi hai k hakoumat aur fouj donon dollars ko daikh rahi hain.kitny operations ho rhy hain,suna tha isi no one hai lakn kiya ho rha hai ye phr...

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025