• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

ملالہ: ہر پاکستانی عورت کے اندر بسی سترہ سالہ لڑکی

شائع December 14, 2014
ملالہ یوسفزئی اوسلو میں نوبل انعام ملنے کے بعد اسے دکھا رہی ہیں— اے پی فوٹو
ملالہ یوسفزئی اوسلو میں نوبل انعام ملنے کے بعد اسے دکھا رہی ہیں— اے پی فوٹو

مجھے خبروں کی دنیا سے جڑے لگ بھگ ایک دہائی کا عرصہ ہوچکا ہے اور اکثر بم دھماکوں کی ایسی فوٹیجز دیکھتی ہوں جس میں انسانی جسموں کے اتنے ٹکڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کی شناخت ناممکن ہوجاتی ہے یا ننھی بچیوں اور بچوں کے دھندلے کیے گئے چہرے جو زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں یہ سب انسانیت کے بدصورت حقائق ہیں۔

مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو مجھے وہ وجوہات یاد دلاتے ہیں جس کی وجہ سے میں نے اس پیشے کا حصہ بننا پسند کیا تھا۔

ملالہ یوسفزئی کی آواز سے میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگے۔ میرا دل جو طویل عرصہ سے ملازمت پیشہ خاتون بننے پر پچھتاوے کا شکار تھا آخر کار آزادی محسوس کرنے لگا۔

میں نے جب یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو خود سے یہ کہتی رہی ' یہ لڑکی تو ابھی صرف 17 سال کی ہے'۔

وہ تو محض سترہ سال کی ہے میں نے اسے تحریر کیا بلکہ بار بار مختلف انداز لکھا کیونکہ یہ ایسا فقرہ نہیں جسے ہضم کرنا آسان ہو۔ سترہ سال تو وہ عمر ہوتی ہے جب کوئی لڑکی خود کو پورا دن فیشن جریدوں میں گم رکھتی ہے، نیل پالش، چہرے کی خوبصورتی کے انداز اور برانڈ بیگس وغیرہ اس کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔

جب میں سترہ سال کی تھی تو میں جانتی تھی کہ ایک ہموار شاہراہ پر چلنا مجھے پسند نہیں، میں ایسی زندگی نہیں چاہتی تھی جیسی میری ماں کی تھی جس میں وہ ہر وقت کسی کی تمنا کرتی تھیں مگر ان کی شادی انیس سال کی عمر میں ہی کردی گئی ' کیونکہ یہ ضروری تھا'۔

آخر یہ ضروری کیوں نہیں

میری ماں اس لیے بھی خوش قسمت تھیں کہ ان کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو چاہتا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں مگر شادی کے بعد کئی بار حمل اور بچوں کے بڑے ہونے کے باعث بتدریج وہ پس منظر میں گم ہوتی چلی گئیں۔

پچیس سال بعد میرا نوجوان حساس ذہن ایک ایسی عورت کو دیکھتا تھا جو اکثر اپنے ماضی میں کھو جاتی اور حیران ہوتی کہ وہ اپنی ازدواجی اور ماں کے فرائض کے ساتھ ایک کیرئیر کا تجربہ کیسے کرتی۔

ہم اکثر یہ کہانیاں سنا کرتے کہ کس طرح وہ اور ان کی بہنیں اپنے کمرے میں چھپ کر رات گئے اردو شاعری کی کتابیں اور ناولز وغیرہ پڑھا کرتیں وہ بھی اس وقت جب انہیں اپنے والد کے سونے کا یقین ہوجاتا۔

ایک کہانی یہ بھی تھی کہ کس طرح انہوں نے افسانے لکھنا شروع کیے مگر ان کے بھائی نے ان کی ڈائری تلاش کرلی اور اپنے والد کو بہن پر پابندی کے لیے مجبور کیا جس کی وجہ خاندان کے لیے شرمندگی کا خدشہ تھا کیونکہ اسے لگتا تھا " آخر اس کے لیے محبت کی کہانیاں کیسے ممکن ہے؟ اس بارے میں تحریر کرنے کے لیے تجربے کی ضرورت پڑتی ہے"۔

تخیل کا پہلو ایسا عنصر تھا جسے کبھی قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔

انہوں نے پھر کبھی کچھ تحریر نہیں کیا۔ وہ اپنے جاپانی کیمرے سے تصاویر کھینچنے کی شوقین تھی مگر شادی کے بعد انہیں اس مشغلے سے روک دیا گیا۔ یعنی سب کچھ ان کے عزائم کا دشمن ہوکر رہ گیا۔

وہ لڑکی جسے خاموش نہیں کرایا جاسکا

ملالہ یوسفزئی سترہ سال کی مہذب و شائستہ لڑکی ہے جس پر سی آئی اے ایجنٹ ہونے، مغربی کٹھ پتلی، یہودی سازش جیسے الزامات لگائے گئے متعدد افراد کو تو یہی یقین نہیں کہ اسے طالبان نے گولی ماری تھی اور ایسے لوگوں کے لیے یہ بس ایک ڈرامہ ہے۔

میں کہتی ہوں ان افراد کو معاف کردیں، ان کے ذہن ایک نوجوان لڑکی کے بارے میں دردناک حد تک محدود ہوچکے ہیں ہمیں اپنے ذہن ان خیالات کے گرد نہیں لے جانے چاہئے۔

میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ملالہ ایک سفید فام مرد کا بوجھ ہے اور اس لیے باراک اوباما اور ان کے خاندان نے ملالہ سے وائٹ ہاﺅس میں ملاقات کی، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس وقت ایک بچی تھی جب اس نے تعلیم کی خواہش کے ساتھ بلاگ لکھنا شروع کیے اور جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ اس وقت بچی تھی جب اس پر حملہ ہوا اور ہاں اس حوالے سے وہ خوش قسمت تھی کہ فوج کی میڈیکل کور نے اس کا علاج کیا اور پھر اسے مزید طبی نگہداشت کے لیے مانچسٹر جانے کا موقع ملا۔

میں آپ کی مایوسی کو سمجھتی ہوں جیسے کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ پاکستان بھر میں متعدد بچے اور بچیاں قتل کیے جاتے ہیں تو آخر ملالہ اتنی خاص کیوں ہے؟ میں اس کا جواب نہیں دے سکتی اور نا ہی امریکی، یہودی یا سفید فام افراد کوئی جواب دے سکتے ہیں مگر وہ بچنے میں کامیاب رہی اور اس نے پروقار انداز میں ہر اس فرد کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کی مدد کی۔

اس کے بعد ملالہ نے ایک فنڈ تشکیل دیا تاکہ تنازعات سے گھرے ممالک میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے مدد فراہم کی جاسکے کیا یہ اسے دنیا کےسب سے معتبر اسٹیج پر لے جانے کے لیے کافی نہیں؟ شاید نہ ہو۔

مگر یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ اس نے ذاتی طور پر کوئی اسکول تعمیر نہیں کیا نا ہی یہ حقیقت زیادہ اہم ہے کہ اس نے حمیرا بچل کی طرح کلاس رومز میں کھڑے ہوکر آنے والی نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔

نا یہ بات کہ ملالہ نے شبینہ مصطفیٰ کی طرح گیراج اسکول قائم نہیں کیے جہاں نچلے طبقے کے لاتعداد بچے مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں اور آپ نور عنایت خان کو بھی نہیں جانتے ہوں گے یہ وہ شخصیت ہے جس کے لیے میٹرک اور او لیول کے لیے مطالعہ پاکستان کی تدریسی کتاب میں کوئی جگہ نہیں۔

نا ہی ملالہ شازیہ خان کی طرح ہے جنھوں نے پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی جس کی قیادت اب بارعب شخصیت کی مالک ثناءمیر کررہی ہیں۔

اور ہوسکتا ہے کہ یہ بات بھی اہمیت نہ رکھتی ہو کہ لوگ جیسے پروین رحمان جنھیں ضرورت مند افراد کو ایک بہتر دنیا فراہم کرنے کے مقصد کے لیے سرگرم ہونے پر قتل کردیا گیا۔

فرق یہ ہے کہ ملالہ کو بھی پروین کی طرح کی خاموش کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ چپ نہیں ہوئی۔ وہ پھر بولنے لگی۔ وہ پھر لکھنے لگی اور اس نے وہ سب کچھ کرکے دکھایا جو اس نے اپنے بچپن میں کہا تھا اور خود کو اس مقام پر لے گئی جہاں اب اس کی آواز سنی جاتی ہے۔

ملالہ کے بعد کی دنیا

آج ملالہ کی نوبل انعام ملنے کے موقع پر کی جانے والی تقریر کو سننا بطور ایک پاکستانی خاتون میری زندگی کا سب سے پرمسرت دن ہے۔ اس سے مجھے اچھے مستقل کا تصور کرنے کا موقع ملا جہاں تعلیم کو رائے نہیں بلکہ لازمی تصور کیا جائے گا۔

میں نے ملالہ کو ایسے مستقبل کا وعدہ کرتے دیکھا جو اطاعت شعاری سے آزاد ہوگا۔ میں نے کبھی یہ رائے نہیں رکھی کہ گھریلو زندگی کو پسند کرنے والی خاتون اپنی زندگی کے لیے کچھ اور انتخاب کرنے والی خاتون سے کمتر ہوتی ہے مگر ان کے پاس انتخاب کا حق تو ہونا چاہئے۔

پشاور میں ایک کیک کاٹ کر ملالہ یوسفزئی کو نوبل امن انعام ملنے کی خوشی منائی جارہی ہے— فوٹو ظاہر شاہ شیرازی
پشاور میں ایک کیک کاٹ کر ملالہ یوسفزئی کو نوبل امن انعام ملنے کی خوشی منائی جارہی ہے— فوٹو ظاہر شاہ شیرازی

یہ دنیا ایسی ہونی چاہئے جہاں گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی کی خواہشمند خواتین کی زندگیاں آسان ہو، ایسی دنیا جہاں دفاتر میں ترقیوں کا انحصار اس بات پر نہیں ہونا چاہئے کہ کب آپ حاملہ ہوجاتی ہیں ، ایسی دنیا جہاں انتظامی پوزیشنز اس لیے نہیں دی جاتیں کیونکہ ورکنگ اوقات کے بعد آپ کو خاندان کے امور نمٹانے ہوتے ہیں، ایک ایسی دنیا جہاں چائے کی توقع رکھنی کی بجائے پیار سے اس کی درخواست کی جائے۔

میں بہت زیادہ فخر محسوس کررہی ہوں کہ مینگورہ سے تعلق رکھنے والی ایک سترہ سالہ لڑکی نے کھڑے ہوکر ہم سب کی نمائندگی کی، جو کام کرنا اور اپنے منتخب کردہ شعبوں میں دنیا کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

میری ماں کی نسل سے ملالہ تک پہنچنے کے لیے ہم نے بہت طویل سفر طے کیا ہے اور یہ ایسی کامیابی ہے جس کی خوشی منائی جانی چاہئے۔

انگلش میں پڑھیں۔

عالیہ چغتائی

لکھاری ڈان نیوز کی اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AliaChughtai@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

syed Dec 14, 2014 03:59pm
آج کل یونیوسٹی ہو یا کل کالج لڑکے ہوں یا لڑکیاں بلا وجہ ملالہ کے خلاف ہیں جسے اس نے انکی تعلیم پر ڈاکہ ڈالا ہو اور ملنے والا نوبل انعام انکا اس نے زبردستی چھین لیا ہو شاندار کالم ہے
anas Dec 15, 2014 04:34pm
hmmm

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024