71ء کی کہانی: خوف، طاقت اور غصہ — اور ایک نرم بنگالی مسکراہٹ
پاکستانی بنگلہ دیش سے آنکھیں ملانے سے کتراتے ہیں۔ 1970 کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ ایک گمراہ کن بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے اس پورے معاملے کو بڑی صفائی سے ایک 'سازش' قرار دے دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سازش ہوئی ہو۔ لیکن کس نے کس کے خلاف سازش کی اور کب؟ بنگالی کیا چاہتے تھے؟ وہ اس انتہائی حد تک کیونکر پہنچے جس کے بعد راستے الگ ہوگئے؟
یہ مضمون اس سلسلے کا چوتھا اور آخری حصّہ ہے جو اس ملک میں جمہوریت کی نشوونما کے نقطہ نظر سے 1971 میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے حصے کے لیے کلک کریں۔
بادشاہ جتنا زیادہ غضب ناک ہوتا ہے، اتنا ہی بڑا بادشاہ مانا جاتا ہے، اور غضب ناک ہونے کا مطلب ہے جتنے لوگوں کو جتنا چاہیں دکھ درد پہنچائیں، زخمی کردیں بلکہ ان کی جان بھی لے لیں۔
تاریخِ عالم ایسے بادشاہوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ یہی حال برصغیر ہندوستان کی تاریخ کا بھی ہے۔ لگ بھگ ایک ہزار سال تک مسلم شہنشاہ جو مغربی پہاڑوں سے گزر کر یہاں آئے تھے، اس وسیع وعریض سرزمین میں خوف کافی دور دور تک پھیلاتے رہے۔
یہ بادشاہ ایک ایسا سرچشمہ تھے جن سے ڈراور خوف آہستہ آہستہ رستا رہتا اور ان کے ملازمین جو شہری ، فوجی اور مذہبی امورانجام دیتے اسی خوف کے عالم میں اپنی زندگی گزار دیتے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت بالاخر 1855 میں ختم ہو گئی اور تاج برطانیہ نے باقاعدہ طور پر اس کے نظم و نسق سنبھال لیا۔
یہ تبدیلی اس معمول کے مطابق نہ تھی کہ ایک کی جگہ دوسرا خاندان عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے۔ نئے حکمرانوں نے پورا نظام ہی بدل دیا۔ یہ لوگ نہ تو مسلمان تھے اور نہ ہی ہندو، اور انہوں نے ایک نئی قسم کی حکومت رائج کی۔
اس اہم واقعے کی ایک دہائی کے اندر ہی مسلمان علمائے دین نے خود کو از سر نو منظم کرنا شروع کیا اور دارالعلوم دیوبند قائم کیا۔ مسلم سول بیوروکریسی نے دو دہائیوں بعد سرسید احمد خان کی رہنمائی میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ 1906 میں اس کانفرنس کا 20 واں اجلاس جو ڈھاکہ میں ہوا، میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی۔
انڈین نیشنل کانگریس اس سے کافی پہلے 1885 میں وجود میں آچکی تھی۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصّے میں ہندوستان کی سیاست اپنا رشتہ نئے حقائق سے جوڑ رہی تھی، جن میں سے اہم ترین رشتہ عوام کی حکوت کے امکانات سے تھا۔
جمہوریت کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ تعداد سے غذا حاصل کرتی ہے اور رائے شماری پر پنپتی ہے۔ چنانچہ نوآبادیاتی انتظامی مشین نے 1872 سے ہی گنتی کا عمل شروع کر دیا تھا۔ لیکن پہلی مردم شماری جو 1865-1872 کے درمیان کی گئی، تمام حصوں میں بیک وقت نہیں کروائی گئی تھی۔
چنانچہ 1881 میں جو مردم شماری ہوئی اسے پہلی مردم شماری قرار دیا جاتا ہے۔ جو اعداد و شمار حاصل ہوئے، خصوصا آبادی کے تعلق سے علاقوں، ذاتوں اور مذہبوں کے بارے میں جو نتائج سامنے آئے وہ سب سے بڑی سیاسی حقیقت بن گئے۔
مسلمان اب یہ دیکھ سکتے تھے کہ تقریباً ایک ہزارسال کی حکومت کے بعد اعداد وشمار کے تحت وہ اب ہندوستان میں اقلیت بن گئے تھے۔ انتخابی نظام کے طریق کار نے انہیں چوکس کردیا۔ انہیں خوف تھا کہ جمہوری سیاسی نظام میں وہ طاقت سے محروم ہوجائیں گے۔
ایسی آبادی جو ایک چوتھائی ووٹروں سے بھی کم ہو، کے لیے کیا مواقع موجود رہتے ہیں؟
چنانچہ مسلم لیگ نے اپنے لیے علیحدہ حلقہء انتخاب کا مطالبہ کیا تاکہ قانون ساز اداروں میں انہیں متناسب نشستوں کی ضمانت مل سکے، لیکن انڈین نیشنل کانگریس نے اس مطالبے کی مخالفت کی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ ووٹ مشترکہ ہوں۔
1932 کے کمیونل ایوارڈ میں (یہ قانون برطانوی حکومت نے جاری کیا تھا) اقلیتوں کی پوزیشن کو تسلیم کر لیا گیا اور ذات اور مذہب کی بنیادوں پر انتخابی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ یہی تقسیم بعدازاں دو علیحدہ ملکوں کے قیام کا مطالبہ بن گئی، اور دو ملکوں کا قیام عمل میں آیا۔ مسلمان اب اس نئے ملک پاکستان میں اکثریت میں تھے۔ وہ اب کم تعداد کی بنا پر کسی حقیقی یا تصوراتی مخالف کے محکوم بننے والے نہیں تھے، اور اپنی مرضی سے جمہوریت پر عمل پیرا ہوسکتے تھے۔
اس کے برعکس اب غیرمسلم پاکستان میں اقلیت بن گئے۔ کیا وہ مسلم اکثریت سے خوفزدہ تھے؟ کیا اب انھیں جداگانہ حلقہ انتخاب کا مطلبہ کرنا چاہیے تھا؟ ہوسکتا ہے کہ وہ خوفزدہ ہوں، لیکن انہوں نے اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ ہوا اس کے برعکس۔
مسلم لیگ کے ایک حصّے نے مشترکہ انتخابی نظام کی شدت کے ساتھ مخالفت کی اور یہ مطالبہ کیا کہ مذہب کی بنیاد پر جداگانہ طریق انتخاب کو برقرار رکھا جائے۔ کیا اب بھی وہ ہندوؤں سے خوفزدہ تھے جو اب ایک اقلیت بن چکے تھے؟ بلاشبہ سیاسی طور پر سرگرم اور بیباک ہندو رہنما ان کے لیے درد سر تھے اورمسلم لیگ کے حکمران ان سے چھٹکارہ پانا چاہتے تھے۔
لیکن کیا مشترکہ طریقہ انتخاب اقلیت کی آواز بھاری اکثریت میں دبانے کے لیے درست طریقہ نہیں تھا؟ آخر مسلم لیگ اس بات پر کیوں مصر تھی کہ غیر مسلم علیحدہ ووٹ دیں؟
اس مسئلہ پر ایک اور بھی اختلاف تھا اور شاید اس سے یہ بات واضح ہو سکے۔
مشرقی پاکستان جداگانہ طریقہ انتخاب کے سخت خلاف تھا جبکہ مرکزی اور پنجاب مسلم لیگ اس کی سب سے بڑی حامی تھیں۔ مشرقی پاکستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی یا تو ہندو اور نچلی ذات (شیڈولڈ کاسٹ) سے تھی، جب کہ مغربی صوبوں میں غیر مسلم آبادی پانچ فی صد سے بھی کم تھی۔
موجودہ پنجاب میں غیر مسلم آبادی (زیادہ تر عیسائی) مجموعی آبادی کا مشکل سے ڈھائی فیصد ہے۔ چنانچہ اس صوبے نے جہاں غیر مسلم آبادی بہت معمولی تھی، علیحدہ انتخابات کی حمایت کی، اور وہ صوبہ جہاں ان کی تعداد خاصی بڑی اور قابلِ لحاظ تھی، چاہتا تھا کہ مسلمان اور ہندو مشترکہ طور پر انتخابات میں حصّہ لیں!
اس مسئلے کا ایک نظریاتی پہلو بھی ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے اس بات کو اہمیت دیتے تھے کہ غیر مسلم کے ووٹ ایمان والوں کے ووٹوں میں شامل نہ ہو جائیں تاکہ پاک ریاست کا حق حکمرانی "آلودہ" نہ ہو جائے۔
جبکہ دوسری جانب غیر مسلموں نے اسلام کے علاوہ اپنی تمام شناختوں یعنی زبان اور ثقافت کو نمایاں کرنا شروع کردیا۔ ان کے نزدیک ان کی شناخت ان کا مشترکہ ورثہ تھا، اور نہیں چاہتے تھے کہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کے وقت اس سے دستبردار ہو جائیں۔
لیکن میراخیال ہے کہ ان نظریاتی تاویلات سے زیادہ اہمیت ٹھوس سیاسی حقائق کی ہے، جن میں سے کٹھن ترین بات یہ تھی کہ بنگالی آبادی باقی تمام آبادی سے مجموعی طور پر زیادہ تھی۔
اس حقیقت کو تلخ تر بنانے کے لیے یہ حقیقت بھی تھی کہ " باقی آبادی" مزید چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بٹی ہوئی تھی، چنانچہ جمہوریت کے تحت ہمیشہ بنگالی ہی جیت میں رہتے۔
پاکستان پر بنگالیوں کی حکمرانی کسی بھی صورت پاکستان کے اس نقشے کے مطابق نہیں تھی، جو اس کے خود ساختہ معماروں نے بنایا تھا۔ اس پر حکمرانی کا حق صرف پنجاب کے لگان لینے والے جاگیرداروں اور شمالی ہندوستان سے آنے والے خاندانی بیوروکریٹس کو حاصل تھا۔
بنگال کی سیاسی قیادت، جو زیادہ تر متوسط طبقے کے سیاسی طور پر باشعور، اہلِ دانش اور متحرک لوگوں پرمشتمل تھی، ان کے لیے قطعی قابل احترام نہ تھی۔
چنانچہ جمہوریت کا بھوت "نواب صاحب" کو شدت کے ساتھ پریشان کرنے لگا۔ وہ اس بات پر برا فروختہ تھے کہ تعداد میں ان سے زیادہ بنگالی مسلمان ان پر حکومت کریں گے۔ جمہوریت کے اصولوں پر انھیں غصہ آیا اورانہوں نے اسے ٹھیک کرنے کا ارادہ کر لیا۔
انہوں نے دو دھاری حکمت عملی تیار کی۔ ایک تو یہ انہوں نے مشرقی بنگال کو چھوڑ کر دوسری تمام " اکائیوں" کو ایک ریاست میں ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا جسے ون۔ یونٹ کہا گیا اور اسے مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔ لیکن یہ بھی بنگالیوں کی تعداد کوکم کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوا جو آبادی کی غالب اکثریت یعنی 54 فیصد تھے۔
اس حکمت عملی کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ مشرقی بنگال کو چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اور اس معاملے میں مسلم لیگ کوایک ہی طرح کا تجربہ حاصل تھا یعنی، مذہبی بنیادوں پر تقسیم۔
چنانچہ، اگر بنگالی ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پرتقسیم کر دیا جاتا تو بنگالی مسلمانوں کے نمائندوں کی تعداد مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے نمائندوں کے مقابلے میں کم ہوجاتی۔ بنگالیوں نے اس منصوبے کو تاڑ لیا اور اس کے خلاف سینہ سپر ہو گئے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1950 میں آئین کا جو پہلا مسودہ پیش کیا اس میں انتخابی نظام کے متعلق کوئی تجویز شامل نہیں تھی کیونکہ جس کمیٹی کو یہ فریضہ سونپا گیا تھا اس میں شدید اختلافات تھے۔
اگلے وزیر اعظم ناظم الدین دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آگئے اور انہوں نے 1953 میں جو مسودہ پیش کیا اس میں علیحدہ طریق انتخاب کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن اس مسئلے پر اور دیگر مسائل پر گرما گرم بحث کے بعد اس مسودہ کو مسترد کر دیا گیا۔
تیسرے مسودے پر بھی کوئی اتفاق رائے نہ ہوسکا اور محض اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ متنازع مسئلہ آئین کو حتمی شکل دینے میں مزید تعطل کا باعث نہ بن جائے، یہ طے کیا گیا کہ طریق انتخاب کےمعاملے میں کوئی تجویز نہ پیش کی جائے اور اس مسئلہ کو قومی اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ بعد ازاں اس سلسلے میں قانون بنائے۔
جب اسمبلی میں اکتوبر 1956 میں اس مسئلہ کو زیر بحث لایا گیا تو ایوان نے جو ایلیکٹوریٹ ایکٹ منظورکیا، اس میں مغربی پاکستان کے لیے جداگانہ طریق انتخاب اور مشرقی پاکستان میں مشترکہ انتخابات رکھے گئے۔
حکومت میں شامل بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات شرم کا باعث تھی کہ وہ اس ملک میں جسے اپنے اسلامی اتحاد پر ناز تھا، ایک نظام کے تحت انتخابات کروانے کے مسئلہ پر متفق نہ ہو سکے۔ جلد ہی اس قانون میں ترمیم کردی گئی اور دونوں بازوؤں میں مشترکہ انتخابی نظام رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
لیکن جنرل ایوب اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انہوں نے نوزائیدہ آئین کو کالعدم قرار دے دیا تھا، اس لیے اس قانون کے تحت انتخابات منعقد نہ ہو سکے۔ جب جنرل ایوب اپنی غیر قانونی فوجی حکومت کو آئینی لبادہ پہنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے تو انھیں بھی جداگانہ طریق انتخاب کا مشورہ دیا گیا جسے انہوں نے مسترد کردیا۔ نہ ہی جنرل یحییٰ میں اتنی ہمت تھی کہ لیگل فریم ورک آرڈر، جس کی بنیاد پر 1970 میں پہلے عام انتخابات منعقد کیے گئے، کا مسودہ تیار کرتے وقت ایسا کرسکیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے فریق نے علیحدہ طریق انتخاب کے معاملے میں اپنا منصوبہ ترک کردیا تھا۔ بنگالیوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور درحقیقت وہ بعد ہی میں اس پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بنگالی بھی اپنی بات پر مصر رہے اور سبھی یہ سمجھ چکے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے وہ اس نقطہ پر اتفاق نہیں کریں گے۔
بنگالی اپنے ہم وطن ہندو شہریوں سے خوفزدہ نہیں تھے اور پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالیوں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہا۔ یا شاید بنگالیوں کو اپنے مسلمان حکمرانوں سے زیادہ خوف آنے لگا تھا اور پاکستان کی ریاست ان کے خوف کو ہندوؤں کی جانب موڑنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
بہرحال، بنگالیوں کے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کہ ہندو ان کے سیاسی نظام کا ناگزیر حصہ نہیں ہیں، نے ہماری حکمران اشرافیہ کو اور زیادہ خوفزدہ کر دیا کیونکہ غالباً ان کو ڈر تھا کہ ہندو اور بنگالی دونوں مل کران پر مسلط ہوجائیں گے۔
انہوں نے بنگالیوں کے خلاف بدترین غیض وغضب کا اظہار کیا تاکہ ان کے دلوں میں خوف بیٹھ جائے۔ لیکن دبلے پتلے نرم خوبنگالی پھر بھی مسکراتے رہے، اور بے خوف اپنی آزادی کے طلبگار رہے۔
اور یوں بنگلہ دیش نے جنم لیا۔
ختم شد۔
یہ بلاگ اس سے پہلے ڈان کی ویب سائٹ پر دسمبر 2012 میں شائع ہوچکا ہے۔
تبصرے (9) بند ہیں