بین الاقوامی قوانین سے انکار
مدارس کے اساتذہ اور علمائے دین کا بڑا حصہ مسلمانوں کو ایک امت کے علاوہ کسی اور صورت میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور ان کے نزدیک اس امت کے لیے خطرہ سمجھے جانے والوں کے خلاف جبری حربے آزمانا جائز ہے۔
عالمی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اقوام متحدہ کے منشور اور ان متعدد معاہدوں کو نظرانداز کردیتے ہیں جس میں کسی ریاست کے فرد پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ مذہبی جذبات کی بنا پر یکطرفہ طور پر اس طرح کے حربے استعمال کرے۔
امت کے 'دشمنوں' کے خلاف ہر حربے کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ اساتذہ اور علما قانونی رکاوٹوں اور پابندیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔
اس طرزِ فکر نے اس ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے جو ریاستی ضوابط سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے، اور بڑی سطح پر بات کی جائے، تو عالمی برادری کے ضوابط کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، جن کے قوانین اور اختیارات کو ان کی اپنی ریاست تسلیم کرتی ہے۔
یہ ذہنیت اپنے مقاصد کا خود تعین کرسکتی ہے، اپنے ٹارگٹ منتخب کرسکتی ہے اور یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ کس طرح اپنے اہداف سے اپنی شرائط پر نمٹا جانا چاہیے، جبکہ یہ کہیں بھی، کبھی بھی، اور کسی کے بھی خلاف طاقت کے استعمال کے لیے بھی تیار ہوتی ہے۔
ان اقدامات کا واضح اظہار دہشت گرد حملوں کی صورت میں ہوتا ہے جو شہریوں کی جانوں اور ان کی املاک کے تحفظ کے تسلیم شدہ قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہیہ ذہنیت مذہبی احکامات کی اپنی مرضی سے تشریح کر کے لوگوں کی حمایت حاصل کررہی ہے۔
اس تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں کہ باقاعدہ اور ریاستی حمایت سے بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا نوجوانوں کو انتہاپسندی سے دور رکھنے کے لیے ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے جو غیرریاستی اداکاروں کے پروپیگنڈا کا شکار ہورہے ہیں۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ وقت میں جنگوں کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ فوجی نقطہ نگاہ سے ممکن نہیں۔ درحقیقت آج کے دور میں معاہدوں میں اپنی پوزیشن کا بات چیت کے ذریعے کامیاب دفاع اور بین الاقوامی فورمز پر دوطرفہ تعلقات سے زیادہ سے زیادہ فوائد کا حصول ہی ریاستوں کی کامیابی مانی جاتی ہے۔
ریاستوں کو ذہانت سے عالمی قانون سازی کے عمل میں حصہ لینا ہوتا ہے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں اور قانون سازی کا یہ عمل لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بین الاقوامی قانونی اداروں کے ذریعے چلتا رہتا ہے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ مسلم ذہنیت صلاح الدین ایوبی کے جدید ورژن (ریاست کا عام طور پر جنگ کے لیے تیار رہنا، ضروری نہیں کسی خاص فریق کے خلاف ہو) سے آگے بڑھے جسے ایک ریاست کی مضبوطی اور کامیابی کی واحد علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بجائے مستقبل کی کامیابیوں کے لیے دانشورانہ تحقیق پر سرمایہ کاری اور تحقیقی میدان میں سرمایہ کاری پر توجہ دی جانی چاہیے۔
مدارس کے طالبعلموں، ان کے اساتذہ اور علمائے دین کو یہ تمام مسائل سمجھائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بین الاقوامی قوانین اور ترقی کی پابندی کرنے کے فوائد کو جان سکیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ تصور مضبوط ہو، کہ بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد، یہاں تک کہ ریاست کے شہریوں کی طرف سے بھی، درحقیقت سب کے لیے فائدہ مند ہے۔
توقع ہے کہ اس کے بعد یہ علمائے دین اسلام کے تصور کو بطور مذہبِ امن عالمی قوانین سے جوڑیں گے، جو کہ امن کا فروغ چاہتا ہے۔ کچھ علمائے دین، بشمول ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علاوہ، زیادہ تر نے مذہب کے اس تصور اور عالمی قوانین میں ہم آہنگی نہیں پائی ہے۔
گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران لکھا گیا ایسا ادب ڈھونڈنا آسان نہیں جو پاکستان، ہندوستان، مصر یا سعودی عرب میں علمائے دین نے لکھا ہو، جس میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ریاستوں پر عائد ہونے والے بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کا تجزیہ کیا گیا ہو۔
ایسا نظر آتا ہے کہ برصغیر میں مسلم علماء اپنے مباحثوں میں بین الاقوانین قوانین کی ترقی کے عناصر کو مد نظر نہیں رکھتے۔ انہوں نے کبھی ان معاہدوں پر توجہ نہیں دی جس کی توثیق ان کی ریاستوں نے کررکھی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے تحقیقی کام میں ان معاہدوں کے متن پر تبصرہ نہیں کرتے۔ وہ کبھی بھی ان معاہدوں کے فوائد یا نقصانات کا تجزیہ نہیں کرتے۔
اس کے بجائے اگر وہ صرف اسلام کی تاریخ ہی پڑھ لیں، تو انہیں کافی فائدہ ہو۔ اسلام کا ہر مکتبہ فکر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ دیگر قبائل سے کیے جانے والے معاہدوں کا ہر صورت میں احترام کیا چاہے اس سے فائدہ ہو یا نقصان۔ اسی جذبے کو سال 2014 تک توسیع دی جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور، عالمی ادارہ محنت کے کنونشنز، انسداد دہشتگردی کی قراردادوں وغیرہ کی پابندی اسی روایت کا تسلسل ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں خود پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ موجودہ عہد میں ایک ریاست جب کسی معاہدے کا حصہ بنتی ہے تو شہری بھلے ہی اس پر تنقید کریں، لیکن اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی ریاست اپنے پڑوسی ملک سے عدم مداخلت کا ایک معاہدہ کرتی ہے تو اس کے شہری بھی اس کے پابند ہوجاتے ہیں چاہے وہ جہاد کا عزم یا انتہاپسندانہ تصورات ہی کیوں نہ رکھتے ہو۔
درحقیقت مسلم دنیا کے علماء کو بین الاقوامی معاہدوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ریاستوں کو پرامن طریقوں کا پابند بنانے والے معاہدے انسان کے روحانی سفر میں بھی سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کی روشنی میں، اور اس کے ساتھ ساتھ اگر اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ پائیدار امن کتنا ضروری ہے، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ معاہدوں سے انکار اور اب تک ہونے والی پیشرفت پر پانی پھیر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
برصغیر کے علمائے دین کو زمینی حقائق کو سمجھنے کے لیے تازہ سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اپنی تحقیق میں یبن الاقوامی قوانین کی ترقی کو شامل کرنا چاہیے۔ بیشتر افراد اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ سرحدوں کی قید سے آزاد اور متحد امت کے حوالے سے علامہ اقبال کا بہترین کام اور شاعری اقوام متحدہ کے منشور پر 1945 میں دستخط ہونے سے کافی برس پہلے کے ہیں۔
یہ منشور ہر قسم کی جارحیت اور طاقت کے بل پر کسی خطے پر قبضے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے، اور یہ عندیہ دیتا ہے کہ انسانی بہتری کو جنگ پر ترجیح دی جانی چاہیے۔ اس نے اس تصور کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا جو اقبال نے اپنے بہترین اور سب سے مقبول کام میں پیش کیا تھا۔ اس لیے ان کے کام کو بھی بین الاقوامی قوانین میں ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لکھاری سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں، اور گذشتہ نگران حکومت میں وفاقی وزیرِ قانون رہ چکے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (5) بند ہیں