پاکستان کی حیرت انگیز کامیابیاں

شائع December 10, 2014 اپ ڈیٹ March 16, 2017
یہ تخلیقی اور سائینسی دور اگر ایسے ہی جاری رہا تو بہت جلد پاکستان ایجاد اور دریافت کے میدان میں درجہ اول پر ہوگا — خاکہ خدا بخش ابڑو
یہ تخلیقی اور سائینسی دور اگر ایسے ہی جاری رہا تو بہت جلد پاکستان ایجاد اور دریافت کے میدان میں درجہ اول پر ہوگا — خاکہ خدا بخش ابڑو

اکیسویں صدی میں اگر باقی ممالک نے نت نئی ایجادات کی ہیں، حیرت انگیز مظاہر کا کھوج لگایا ہے، تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کیا ہوا جو بھارت نے اپنا ’’منگل یان‘‘ انتہائی کم قیمت میں پہلی ہی دفعہ مریخ پر اتار لیا، یورپ کو بھی زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں کہ چند روز پہلے اس کا ’’فیلیا لینڈر‘‘ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ زمین سے صرف پانچ ارب اور دس کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر رواں دواں دمدار ستارے پر اتر گیا جہاں سے یہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی تصویریں زمین پر بھیج رہا ہے۔

ہائیڈروجن پر چلنے والی کاریں جو دھویں کے بجائے پانی کے بخارات چھوڑا کریں گی، روبوٹ جو انسانی ذہن کی طرح سوچ سمجھ اور پلان بنا سکتے ہیں، نینو ٹیکنولاجی جس کی مدد سے خوردبین سے نظر آنے والی انتہائی چھوٹی مشینیں تیار کی جائیں گی جو انسانی خلیوں کی مرمت کا کام کرسکیں گی، جینیٹک انجینئرنگ، انسانی کلوننگ، آواز کی رفتار سے بھی تیز چلنے والے جہاز جو چھ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکیں گے: ان ساری ایجادات کو بھی رہنے دیں۔ ہمارے ہاں کی دریافتوں پر ذرا غور فرمائیں اور بتائیں کہ ہم کیا کسی سے کم ہیں۔

پاکستان میں اکیسویں صدی کی چشم کشا دریافت ’’سزاب مُو‘‘ کا سہرا علم دوست حکمران آصف علی زرداری کے سر ہے۔ معلوم نہیں کہ نذر محمد گوندل جو ان کے دور میں ’’کیڈ‘‘ کے وزیر تھے ان کا اس عظیم الشان دریافت میں کتنا حصہ ہے لیکن بہرحال اصل کریڈٹ تو زرداری صاحب کو ہی جاتا ہے ۔ سزاب مُو دراصل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز کے پہلو میں قائم بیس تیس سالہ قدیم ادارہ تھا جسے ماضی میں قائد اعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آصف علی زرداری کے سنہرے علمی دور کی بدولت ماہرین علم و ہنر نے جدید سائینس اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کئی مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد اس قدیم ادارے کا کھوج لگایا اور اسے شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کہ جس کا مخفف ’’سزاب مُو‘‘ قرار پایا، کا نام دیا۔ وہ چاہتے تو ہڑپہ اور موئن جو دڑو کی طرح اس ادارے کے قدیم نام کو بھی قائم رکھ سکتے تھے لیکن کہاں قائد اعظم اور کہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو، سو آج ہم پاکستان کی اس دریافت کو کہ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانی سائینسدانوں کی خوب دھوم مچی، ’’سزاب مُو‘‘ کے نام سے ہی جانتے ہیں۔

زرداری دور میں ہوشربا دریافتوں کا سلسلہ ’’سزاب مُو‘‘ کی دریافت پر نہیں رکا بلکہ اس دور کی ایک اور دریافت ’’بِبیا‘‘ نے بھی اکیسویں صدی کی عظیم دریافتوں میں نمایاں مقام پایا۔ یہ وہ ہوائی اڈہ تھا جسے قدیم زمانے میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا، لیکن زرداری دور میں ماہرین آثار قدیمہ نے اس کا کھوج بھی لگا لیا اور 2008 میں اسے ’’بِبیا‘‘ یعنی بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام دیا۔ اس عظیم کارنامے کا نتیجہ یوں نکلا کہ کچھ ہی سالوں میں جب دنیا بھر کے بدترین ایئرپورٹس کے بارے میں مسافروں کی آراء لی گئیں تو دنیا بھر کے بدترین ایئرپورٹ ہونے کا اعزاز ’’بِبیا‘‘ کے حصے میں آیا۔ اسی طرح بینظیر بھٹو ہسپتال، بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام جیسی علمی اور عملی فتوحات نے دنیا بھر میں پاکستان کا لوہا منوایا۔

صرف یہی نہیں آصف علی زرداری ہی کے تاریخ ساز دور میں اسلام آباد کے نواح میں انسانی عقل کو خیرہ کر دینے والے ایک نئے ایئرپورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس ایئرپورٹ کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا سنگِ بنیاد تو اکیسویں صدی میں رکھا گیا ہے لیکن یہ پورے پونے دو سو سال زیر تعمیر رہنے کے بعد بائیسویں صدی کے آخیر میں مکمل ہو گا اور اس پر اٹھنے والی فی مربع فٹ لاگت بھی ان پونے دو سو سالوں میں پوری دنیا میں تعمیر ہونے والے تمام ایئر پورٹوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گی۔

زرداری دورِ حکومت تو اختتام پذیر ہوگیا لیکن ایجادات اور دریافتوں کے جس عظیم سلسلے کی بنیاد اس دور حکومت میں پڑی تھی، وہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں بھی جاری ہے۔ پچاس ارب روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں ایک ایسا عجوبہ تیار کیا جا رہا ہے جس پر پوری ساٹھ میٹرو بسیں چلا کر پاکستان پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا۔ ایک معروف تجزیہ نگار فرخ سلیم نے جو اعدادوشمار پیش کیے، ان کے مطابق جس میٹرو پروجیکٹ کو احمد آباد (بھارت) نے تیس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر، دالیان (چین) نے پنتالیس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر، استنبول (ترکی) نے ایک کروڑ ڈالر فی کلومیٹر، لاہور (پاکستان) نے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر فی کلومیٹر خرچ کر کے تعمیر کیا: نواز شریف حکومت نے اسی میٹرو پروجیکٹ کو دو کروڑ ڈالر فی کلومیٹر میں تعمیر کرنے کا اعزاز اپنے نام لکھوالیا۔ سو اکیسویں صدی میں سب سے بلند قیمت میٹرو پروجیکٹ تعمیر کرنے کا سہرا بھی چند مہینے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا ہے۔ اگرمنصوبے کے مطابق ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں بھی میٹرو پراجیکٹ چند سالوں میں مکمل ہو گئے تو یقیناً بعد میں مکمل ہونے والا ہر پراجیکٹ پہلے والے کا ریکارڈ توڑتا جائے گا اور ہم چند ہی سالوں میں دنیا بھر کے اوپر نیچے ایک سے بڑھ کر ایک مہنگے میٹرو پراجیکٹ بنانے کا تمغہ بھی اپنے سر سجا لیں گے۔

’’سزاب مُو‘‘ کے اثرات اس عہد کے باقی قائدین اور سیاسی جماعتوں تک بھی پھیلتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم بقول عمران خان ایک قوم بنتے جارہے ہیں ہمارے ہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں نئی سے نئی منزلیں طے ہو رہی ہیں۔ چند روز قبل ہی عمران خان نے دنیا کے طویل ترین اور رنگین ترین کنٹینر دھرنے کے سو دن پورے ہونے کا کیک کاٹا ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے کہ بہت جلد اس کا نام ایک دفعہ پھر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جنرل ظہیر الاسلام کا نواز شریف کو بتانا کہ دوران حج انہوں نے وزیراعظم کی کامیابی کے لیے بہت دعائیں کی تھیں، بھی کسی ’’سزاب مُو‘‘ سے کم نہیں۔

ہوسکتا ہے کہ جنرل پاشا بھی زرداری، گیلانی اور حقانی صاحب کے لیے کسی عرب ملک میں دعائیں کر رہے ہوں۔ ’’آپریشن دھرناجات ۔ ۱لف‘‘ کے دوران جتنی تعداد میں ’’محب وطن ‘‘ صحافی سامنے آئے، ایک چونکا دینے والا ’’سزاب مُو‘‘ تھا لیکن اس سے بھی بڑا ’’سزاب مُو‘‘ وہ ’’غدار‘‘ صحافی اور نیم صحافی تھے جو سوشل میڈیا پر اتنی بڑی تعداد میں جانے کہاں سے سامنے آ گئے اور کسی حد تک ’’آپریشن دھرنا جات ۔۱لف‘‘ کی بظاہر ناکامی کا سبب بنے۔ ’’آپریشن دھرنا جات - ب‘‘ کا شور اٹھ رہا ہے دیکھیں اس دوران کیسے کیسے ’’سزاب مُو‘‘ رونما ہوتے ہیں۔

سید منور حسن نے انتخابی سیاست کے ساتھ ساتھ قتال فی سبیل اللہ کو بھی مسائل کا حل بتایا ہے۔ علم سیاسیات اور امورِ بین الاقوامی تعلقات کے لیے سید صاحب کی اس تھیوری کے اتنے ہی گہرے اثرات مرتب ہوں گے جتنے نیوٹن کی کششِ ثقل کی تھیوری اور آئین سٹائین کی ریلیٹوٹی کی تھیوری کے فزکس کے میدان میں مرتب ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کی اس تھیوری پرپوری دنیا میں پاکستان کے لیے واہ واہ اور زندہ باد کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔

تھر اور سرگودھا میں اتنی بڑی تعداد میں نومولود بچے اپنے والدین کے گناہ بخشوانے اور انہیں اپنے ساتھ جنت لے جانے کی غرض سے خالق حقیقی سے جا جاکر مل رہے ہیں کہ پوری دنیا کے والدین کو پاکستا ن پر رشک آ رہا ہے ۔

سو ’’سزاب مُو‘‘ کی دریافت کے ساتھ جس بھرپور تخلیقی اور سائینسی دور کا آغاز ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ اگر یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد پاکستان پوری دنیا میں ایجاد اور دریافت کے میدان میں انسانیت کی معراج ثابت ہو گا۔

عدنان رندھاوا

عدنان رندھاوا ایک فری لانس کالم نگار، سابق سفارتکار اور عام آدمی پارٹی پاکستان کے بانی چئیرمین ہیں، اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (13) بند ہیں

Ali Tahir Dec 10, 2014 05:21pm
تھر اور سرگودھا میں اتنی بڑی تعداد میں نومولود بچے اپنے والدین کے گناہ بخشوانے اور انہیں اپنے ساتھ جنت لے جانے کی غرض سے خالق حقیقی سے جا جاکر مل رہے ہیں کہ پوری دنیا کے والدین کو پاکستا ن پر رشک آ رہا ہے ۔ THIS WAS HARSH ONE BUT THATS THE TRUTH AS WELL. VERY WELL WRITTEN.....
Adrish Ayaz Dec 10, 2014 05:22pm
bakwaas article.
Fayaz Ahmad Khwaja Dec 10, 2014 05:26pm
Adnan Saheb, Thora apnay Media kay karnamay bhi bayan kartay, ke kis asani say bek gayee
waqar khan Dec 10, 2014 07:42pm
Very well said kahan quaid e Azam Aur kahan bhutto Both were responsible for .partition One in 1947 Another in 1971
یمین الاسلام زبیری Dec 11, 2014 05:30am
بہت خوب، ایسی بہت سی باتیں عوام بھول جاتے ہیں۔ ایسے اقدامات کر نے والے اپنی سمجھ سے اپنا قرض اتار جاتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ اپنے کرم فرماٗوں اور اپنے آپ کو ہنسی کا نشانہ بنارہے ہیں۔ رندھاوا صاحب آپ عام آدمی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے فعال رہیے گا اور ایسی مذید خبریں ہم تک پہنچاتے رہیے گا۔
Waseem Dec 11, 2014 09:28am
Very well said Mr. Adnan, true picture of our so called visionary leaders who have brilliant ideas for nation but very poor planning for their own kids to send them MIT, Oxford and Harvard!
Rafiud Din Khalid Dec 11, 2014 10:26am
very well written article. thank you sir
Abbas Dec 11, 2014 11:33am
baat sach hai.. magar baat hai ruswai ki :(
ALTAF HUSSAIN Dec 13, 2014 01:01pm
Mosoof apni bhi koi ejad batadeta to behtar tha zardari par to sab hee tanqeed karte hain.
ALTAF HUSSAIN Dec 13, 2014 01:02pm
Boht bakwas article
ali shah Dec 13, 2014 06:26pm
article aik complete mazak hai aur muje author ki information par hansi aa rahi hai. sab se pehle 1. manglian mars par land nahi kia tha. ye aik satellite mars ke liye tha. 2. pakistan main metro bus ke qamat per kilometer ko ruppie ke baje dollars main likh dia mere bhai author ne 3. metro project provincial projects hain ne ke wafaqi
muhammad ali utmankhel Dec 13, 2014 07:13pm
buht khub sir lekin such karwa hota hai.
Arsalan Saleem Dec 14, 2014 03:56am
zabardast article.jo likha hai bahtreen likha hai aur sach likha hai.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024