یونیورسٹیز کو کیسے پرکھا جائے
پچھلے ہفتے اخبارات کی شہہ سرخیاں کافی خوش آئند تھیں۔ 'ایک پاکستانی یونیورسٹی کو یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ نے دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے'۔ بھلے ہی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے پڑوسی ممالک ایران اور ہندوستان کی 10 دیگر یونیورسٹیوں سے نیچے 496 ویں پوزیشن حاصل کی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایک اچھی خبر ہے۔ کیا واقعی ہم ہماری اعلیٰ تعلیم کے گرے ہوئے معیار سے اوپر اٹھنے لگے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے طریقہ کار میں خامیاں ہیں، جس کی وجہ سے نہ اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے، اور نہ ہی تردید۔ اگر یہ طریقہ کار یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کو پرکھنے کے لیے استعمال کیا جائے، تو متنازع ہونے کے باوجود کچھ حد تک درست اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر اسی طریقہ کار کے تحت پاکستان، ایران، اور ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی یونیورسٹیوں کا جائزہ لیا جائے، تو نامعقول نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر 500 بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمس) کا نام موجود نہیں ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی ایک عام سی سرکاری یونیورسٹی ہے، جہاں میں نے 41 سال تک پڑھایا ہے، اور اب بھی رضاکارانہ بنیادوں پر پڑھاتا ہوں۔ مجھے اس سے کافی لگاؤ ہے۔ دوسری جانب لمس ایک پرائیوٹ یونیورسٹی ہے، جو پاکستان کے انتہائی اونچے طبقے کے لیے ہے اور اس کے پاس کہیں زیادہ عقلی اور مالی وسائل موجود ہیں۔ میرے پاس لمس کے لیے ویسے ہی مثبت احساسات نہیں ہیں، جہاں میری دو سالہ ٹیچنگ بدمزگی اور پراسراریت کے ساتھ ختم ہوئی۔ لیکن ایمانداری مجھے یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ لمس ایک یونیورسٹی کی حیثیت سے قائد اعظم یونیورسٹی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جو لوگ دونوں اداروں سے واقف ہیں، وہ میری بات سے اتفاق کریں گے۔
رپورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق رپورٹ کسی بھی یونیورسٹی کو وہاں ہونے والی ریسرچ کی تعداد کی بنا پر پرکھتی ہے۔ زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو کسی بھی یونیورسٹی کو دیے جانے والے گریڈ کا 65 فیصد وہاں تیار کیے گئے پی ایچ ڈیز، پبلش ہونے والے ریسرچ پیپرز، اور ان پیپرز کو ملنے والے حوالہ جات (citations) کی تعداد پر منحصر ہے۔ باقی 25 فیصد ریسرچ کی ساکھ (research reputation) پر ہے، جس کی وضاحت نہ کی گئی ہے نہ کی جاسکتی ہے۔ 10 فیصد اسکور عالمی معاونت (international collaborations) پر مبنی ہے۔ گریڈ دینے کا یہ طریقہ کار نامناسب نہیں ہے کیونکہ بہرحال اچھے جرنلز میں ریسرچ شائع کرانا، اور اس ریسرچ کا دوسرے لوگوں نے کتنی بار حوالہ دیا ہے (citations) گننا کسی بھی فرد اور ادارے کی تعلیمی قابلیت کو جانچنے کے لیے بہت اہم ہے۔ پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس کا ہونا بلاشبہ ریسرچ کلچر کو بڑھاتا ہے۔
لیکن یہاں پر ایک اہم نکتہ موجود ہے۔ سماجی سائنسدان اسے کیمپبل لاء کہتے ہیں۔ اس کے مطابق 'اگر سماجی فیصلہ سازی کے لیے کسی شماریاتی (quantitative) سوشل انڈیکیٹر (اشاریے) کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے، تو یہ بگاڑ کا شکار ہوسکتا ہے، اور جن سماجی چیزوں کو مانیٹر کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ان کو بھی بگاڑ سکتا ہے'۔ یہ قانون بالکل فزکس کے قوانین کی طرح مضبوط ہے۔ اس کا صاف نتیجہ یہ ہوگا کہ مضبوط سسٹم کچھ حد تک مسخ ہوسکتے ہیں، لیکن کمزور سسٹمز پر مقامی مفادات دانستہ طور پر انتہائی حد تک اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
جیسا کہ سب ہی مانتے ہیں، پاکستان کا تعلیمی نظام مضبوطی سے کافی دور ہے۔ اندازے کے مطابق 40 فیصد طلبا میٹرک، انٹر، اور یونیورسٹی کے امتحانات میں نقل کرتے ہیں۔ اساتذہ بھی دکانداروں، پولیس اہلکاروں، سیاستدانوں، ججوں، اور جنرلوں سے زیادہ اخلاقی نہیں ہیں۔ ریسرچ پیپرز کے مصنفین اور پی ایچ ڈی سپروائزرز کو پروموشن اور کیش انعامات دینے کی پالیسی نے ہماری یونیورسٹیوں کو کچرہ ریسرچ پیپرز اور پی ایچ ڈیز پیدا کرنے والے اداروں میں تبدیل کردیا ہے۔ ریسرچ پیپرز شائع کرانا اب ایک آرٹ بن چکا ہے، جس میں دوسری جگہوں سے مواد نقل کرنا، جھوٹا ڈیٹا دکھانا، غیر اہم چیزوں کو اہمیت دینا، پرانے پیپرز کو دہرانا، اور غیر معیاری جرنلز میں ان پیپرز کو چھپوانا شامل ہے۔ کچھ حقیقی اسٹوڈنٹس اور ان کے سپروائزرز سے معذرت کے ساتھ، حقیقت یہ ہے کہ پی ایچ ڈیز ہر کسی کو ہی ایوارڈ کردی جاتی ہیں۔
کئی مضحکہ خیز مثالوں میں سے میں صرف ایک دہراؤں گا، جس پر میں نے ڈاکٹر جاوید لغاری کے ساتھ کئی مہینوں تک بے فائدہ بحث کی تھی، جو ڈاکٹر عطاالرحمان کے بعد ایچ ای سی کے چیئرمین بنے تھے۔
یہ پی ایچ ڈی فزکس کے ایک تھیسز سے متعلق تھا، جسے بلوچستان یونیورسٹی کے ایک 'قابل پروفیسر' نے گائیڈ کیا تھا، جبکہ ساتھی سپروائزر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی تھے۔ تھیسز کا عنوان تھا "A quantitative study on chromotherapy" یعنی رنگوں کی لہروں سے علاج پر ایک شماریاتی تحقیق۔ تھیسز کے متن میں ایسے فارمولے تھے جو کہ دیکھنے والے کو مرعوب کرسکتے تھے۔ کئی نامور پاکستانی ماہرینِ فزکس کے ساتھ ساتھ مجھے بھی یہ نامعقول لگا۔ لیکن کئی مہینوں کی کوشش کے باوجود ڈاکٹر جاوید لغاری قائل نہ ہوسکے، اور ان افراد کے نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا، جنہوں نے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے موزوں قرار دیا تھا۔
آخری کوشش کے طور پر میں نے تھیسز کی کاپی دو انتہائی قابل ماہرین فزکس کو بھیجی، جن کو میں کئی سالوں سے جانتا تھا۔ ایک 1979 میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ اسٹیون وینبرگ تھے، اور دوسرے 1988 میں فزکس نوبل انعام جیتنے والے جیک اسٹینبرگر تھے۔
وینبرگ نے نقطہ بہ نقطہ تنقید تحریر کی، اور اختتام میں لکھا کہ 'میں نے جو دیکھا ہے، اس سے میں بہت حیران ہوں۔ تھیسز میں فزکس کی بنیادی سمجھ بھی موجود نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ تھیسز پی ایچ ڈی دیے جانے کے قابل نہیں، بلکہ یہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ مریضوں کو دواؤں کے بجائے رنگوں سے علاج کی طرف راغب کرسکتا ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ آخر اس تھیسز کے لکھنے والے کو کوئی تعلیمی ڈگری کیسے دی جاسکتی ہے'۔
اسٹینبرگر نے بھی ایسے ہی منفی تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'کسی بھی معقول فزکس ڈیپارٹمنٹ کو ایسا کوئی کام بھی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پچھلی دہائی کی عالمی خبروں کے بعد میں پاکستان کے سیاسی عدم استحکام اور سماجی مسائل کے بارے میں کافی افسردہ تھا، لیکن میں سمجھا تھا کہ یہ کلچرل سطح پر اس سے کہیں بہتر ہوگا جو میں ابھی دیکھ رہا ہوں۔'
اگر ایچ ای سی اور پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنولاجی ان پالیسیز کو واپس لیں جو کرپشن کو فائدہ مند بناتی ہیں، تو یہ خرابی دور ہوسکتی ہے۔ موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے لالچی لوگوں کے پریشر کا سامنا کرنے کے لیے بہت اخلاقی جرات کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر تب جب رپورٹ نے ہولسیل پبلشنگ کرانے کے فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔
ایچ ای سی کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کے ساتھ میری آخری ملاقات کافی خوشگوار رہی۔ انہوں نے سسٹم کی تنزلی پر تشویش کا اظہار کیا، اور میری اس تجویز کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آئے کہ 'ایچ ای سی کو یہ قانون بنا دینا چاہیے کہ ریسرچ پیپر کے مصنف اگر آفیشل کریڈٹ چاہتے ہیں، تو وہ ادارے کی فیکلٹی کے سامنے ویڈیو ریکارڈڈ پریزنٹیشن دیں۔ اس کے بعد یہ ویڈیو ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر مفت حاصل کی جاسکے گی۔
اوپر دی گئی تجویز پر عمل کرنے کے لیے تمام مطلوبہ ٹیکنولاجیز پہلے ہی موجود ہیں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ پہلا، کوئی بھی اہم اور اصل ریسرچ عام ہوسکے گی۔ دوسرا، جھوٹی ریسرچ اور کرپشن فوراً پکڑی جاسکے گی۔
ہماری میٹنگ کو کئی مہینے گزر چکے ہیں۔ پیشرفت جاننے کے لیے کی گئی میری ای میلز کا جواب نہیں آرہا، لیکن مجھے امید ہے کہ جلدی ہی مجھے معزز چیئرمین کا جواب موصول ہوگا۔
لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس اور میتھمیٹکس پڑھاتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (7) بند ہیں