• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 4:39pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 4:46pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 4:39pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 4:46pm

چارلس مینسن کون ہے؟

شائع December 4, 2014 اپ ڈیٹ May 12, 2015
چارلس مینسن اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں — فوٹو getty images
چارلس مینسن اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں — فوٹو getty images

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے، دوسرے حصّے کے لیے کلک کریں


اگست 1969 میں ہالی ووڈ ستاروں کا مسکن لاس اینجلس ایک ہولناک خبر کا مرکز بن گیا۔ بیورلی ہلز کے شمال میں واقع مینشن سیلو ڈرائیو کے رہائشی ڈائریکٹر رومن پولنسکی کی بیوی اور ایکٹریس شیرون ٹیٹ کو رات کی تاریکی میں اس کے دوستوں سمیت انتہائی بیدردی کے قتل کردیا گیا۔ قتل کے وقت شیرون آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں اور دو ہفتے بعد ان کے یہاں پیدائش متوقع تھی۔ اس واردات میں پانچ افراد کا قتل کیا گیا۔ واردات کے وقت پولانسکی لندن میں ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے گئے ہوئے تھے۔

قتل کی تفصیلات سامنے آتے ہی علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس کا خیال تھا کہ یہ کسی ناکام ڈرگ ڈیل یا پھر شیطان کے معتقد گروہ کی سرگرمی کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھانے سے پرہیز کیا۔ بہرحال، شیرون کے شوہر رومن پولنسکی نے پولیس کے ان خیالات کو مسترد کر دیا اور بیان میں کہا کہ شیرون ایک نرم مزاج، محبّت کرنے والی خاتون تھیں اور اپنی زچگی سے نہایت خوش تھیں۔ وہ کسی قسم کی منشیات کے استعمال کا سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں۔

یہ یقیناً ایک ہولناک واردات تھی۔ مقتولوں کو نہایت بیدردی کے ساتھ خنجر کے لاتعداد وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔ پولیس قاتلوں کا سراغ لگانے میں مصروف تھی کہ اس وحشیانہ قتل کے اگلی ہی رات سیلو ڈرائیو سے چند گھنٹوں کی فاصلے پر واقع ویورلی ڈرائیو کے رہائشی سپر مارکیٹ ایگزیکٹو لینو لابیانکا اور ان کی اہلیہ روزمیری انہی قاتلوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ دونوں مقتولوں کو نوکیلے خنجر کے پے در پے کئی وار کر کے ہلاک کیا گیا۔ قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ اس رات جاری رہتا لیکن ایک ممبر کی دانستہ غلطی سے اس رات کشت و خون کا یہ سلسلہ وہیں رک گیا۔

قاتل کون لوگ تھے؟ ان وحشیانہ قتل کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ ان دونوں وارداتوں کے درمیان کیا تعلق تھا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں، سوائے اس کے کہ یہ تمام مقتولین یا تو مشہور اور امیر تھے یا پھر خوش شکل اور یہ کہ ان دونوں کارروائیوں کے پیچھے ایک ہی دماغ تھا۔۔۔۔ چارلس مینسن۔۔۔۔

محروم بچپن اور آوارہ نوجوانی یہی چارلس مینسن کا ماضی ہے۔ اس کی جوانی کا ایک بڑا حصّہ جیلوں اور سزا خانوں میں گزرا۔ یہی قید خانے اس کی درس گاہ بنے۔ وہ بچپن ہی سے لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بن ماں باپ کے اس بچے نے سوسائٹی میں بقاء کا ہنر بچپن میں ہی سیکھ لیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کس طرح لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی جا سکتی ہے، کیسے انہیں اپنی باتوں سے متاثر کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو اپنا تابع بنا کر کام نکلوانا اسے اچھی طرح آتا تھا۔ جرائم پیشہ طرز زندگی اور جیل میں مختلف لوگوں سے روابط نے اسے مزید شاطر بنا دیا۔ صحیح اور غلط کا فرق اس کے نزدیک بےمعنی تھا۔ جیل کی رپورٹس میں اسے خطرناک اور غیر معتبر قرار دیا گیا اور نفسیاتی جانچ کا بھی مشورہ دیا گیا۔

بہرحال 1955 میں اس نے گھریلو زندگی کا آغاز کر کے خود کو سدھارنے کی ایک بار کوشش بھی کی لیکن کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ محض ایک سال میں وہ جرائم پیشہ زندگی کی طرف واپس آگیا اور اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ کئی تجزیہ نگار چارلس مینسن کی گمراہ زندگی کی وجہ محرومی، سماجی غیر استحکام، اور زندگی میں عزت اور محبّت کی کمی بتاتے ہیں اور بطوردلیل ایک سال کے لیے ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کو پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں جاسکتا کہ وہ پہلی جماعت سے ہی اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرنا جانتا تھا۔

ناکام شادی کے بعد چارلس مینسن گمراہی کے گڑھے میں مزید گرتا چلا گیا۔ مختلف جرائم کی پاداش میں سنہ 1958 سے لے کر سنہ 1967 تک کا عرصہ چارلس نے جیلوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزارا۔ اسی دوران اسے موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔ اس نے گٹار بجانا سیکھا اور خود کو موسیقار سمجھنے لگا۔ ساتھ ہی اسی دوران اس کا رجحان مذہبی تعلیم کی طرف ہوگیا۔ 'خود شناسی' کے اس سفر میں اس نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا مگر کہیں بھی اسے خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا، یا یوں کہہ لیں کہ اسے اپنے مطلب کا جواب نہیں مل پایا۔ اسی بیچ اس نے موسیقی کی مشق جاری رکھی۔ وہ اس وقت کے مشہور میوزیکل بینڈ 'دی بیٹلز' سے خاصا متاثر تھا۔

21 مارچ 1967 کو اسے جیل سے رہا کردیا گیا۔ وہ اب بتیس برس کا ہوچکا تھا اور کسی صورت جیل چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ باہر نکل کر کیا کرے گا۔ اس نے اپنی پوری زندگی جیل میں گزاری تھی اب باہر کی دنیا میں ایڈجسٹ کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ کم از کم اس ایک بات پر تو چارلس درست تھا کہ اس کے لیے قید کی زندگی بالکل ٹھیک تھی۔ آگے جا کر اس نے اپنے عقیدت مندوں کی مدد سے پینتیس لوگوں کی جان لے کر یہ ثابت بھی کردیا۔

آزادی ملنے کے بعد چارلس نے ہپی طرز زندگی اپنا لیا۔ اسے منشیات کے استعمال اور ان کے ذریعے لوگوں کو اپنا مطیع بنانا بھی آگیا۔ لوگوں کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے میں تو وہ پہلے ہی سے ماہر تھا، اس پر مزید چار چاند منشیات نے لگا دیے۔ اس نے بہت سے پیروکار بنا لیے جن میں اکثریت کم عمر لڑکیوں کی تھی۔ ایل ایس ڈی اور دیگر منشیات کی مدد سے اپنی خطیبانہ باتوں کے ذریعے اس نے ان نوجوانوں کی سوچ تبدیل کرنا شروع کردی۔ یہ نوجوان جو پہلے ہی گمراہ تھے اور غیر روایتی طرز زندگی کی تلاش میں انہیں چارلس کی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس کا انداز، اس کی باتیں اس کے خیالات سبھی انوکھے تھے۔ وہ ان کے نظریہ حق و باطل پر سوال اٹھاتا اور ان کے خیالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتا چلا جاتا۔ چارلس کے ان عقیدت مندوں کو 'فیملی' کا نام دیا گیا۔ ان عقیدت مندوں کی تعداد لگ بھگ سو تک پہنچ گئی، جس میں سے ایک گروپ چارلس کے انتہائی قریبی اور قابل بھروسہ معتقدین میں سے تھا۔

منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ قید کے زمانے میں مختلف مذاہب کے مطالعے نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مختلف مذہبی نظریاتی گروہوں نے سر ابھارنا شروع کیا۔ ایسے گروہوں کا نشانہ اکثر نوعمر لڑکے لڑکیاں ہوتے جو اپنے گھروں سے بھاگ کر زندگی کی 'مقصدیت ' کی کھوج میں ان کے ہتھے چڑھ جاتے۔ ان گروہوں کا سربراہ اکثر کوئی 'گرو' ہوتا جو ان لڑکے لڑکیوں کو لچھے دار باتوں سے ورغلاتا اور پھر انہیں ذاتی تسکین یا منشیات کے کاروبار کے لیے استعمال کرتا۔ ایسے گروہ آج بھی ہر سوسائٹی میں موجود ہیں اور معاشی یا اخلاقی عدم استحکام کے شکار لوگوں کو اپنے مقاصد کے استعمال کر رہے ہیں۔

چارلس مینسن کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے اور اس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرسکتا تھا۔ اب جبکہ اس کے اپنے ارد گرد اتنے چاہنے والے موجود تھے اس کے لیے ضروری ہوگیا کہ کچھ ایسا ماحول تیار کرے جس کا محور صرف اور صرف وہی ہو۔ اسے جس چیز کی تلاش تھی وہ بالآخر مل گئی تھی، اس کی 'شناخت'۔ اس نے منشیات، موسیقی اور مذہب کی مدد سے نوجوانوں کی سوچ تبدیل کرنی شروع کردی۔ مینسن فیملی میں شامل ہونے والے تمام ہی نوجوان کسی نہ کسی شکل میں عدم تحفظ کا شکار تھے۔ مینسن ان کے لیے ایک باپ بھی تھا، بھائی بھی اور محبوب بھی (ایک پرفیکٹ ساتھی)۔ اس نے ان نوجوانوں کو وہ سب کچھ دے رکھا تھا جو انہیں چارلس کا تابع بنا کر رکھتیں۔ اس کا انداز، اس کے خیالات اس سے وابستہ ہر چیز دلفریب تھی۔ مینسن فیملی اسے پیغمبر سمجھنے لگی (خود چارلس مینسن کو بھی یہی گمان تھا)۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بظاہر دیکھنے اور سننے میں مشفق، نرم خو چارلس ایسے بھیانک جرائم میں کیسے ملوث ہوسکتا ہے؟

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ چارلس، میوزیکل بینڈ 'دی بیٹلز' سے خاصا متاثر تھا۔ مذکورہ بینڈ کا 1968 میں ریلیز ہونے والا البم 'دی وائٹ البم' اس کا پسندیدہ تھا۔ اس البم کے گیتوں خاص کر 'ہیلٹر سکیلٹر' کی تشریح چارلس نے اپنے طریقے سے کرنا شروع کردی۔ ان گیتوں کے حساب سے (چارلس کے نزدیک) بہت جلد ایک عالمگیر معرکہ شروع ہوگا جس میں تمام سیاہ فام، گوروں کے خلاف بغاوت کردیں گے اور ان سب کو ختم کردیں گے (سفید فام اشرافیہ کو چارلس نے 'پگیز' کا نام دے رکھا تھا۔ یہ اصطلاح بھی بیٹلز کے ایک گیت سے لی گئی تھی)۔ اس نے اپنے پیروکاروں کو یہ یقین دلایا کہ اس نسلی جنگ سے مینسن فیملی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ عرصہ وہ سب زیر زمین ایک جنّت نما مقام پر گزاریں گے۔ اور جب تمام 'پگیز' کا خاتمہ ہوجائے گا تو مینسن فیملی اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل کر سیاہ فاموں کو اپنا مطیع بنا لے گی اور اس طرح پوری دنیا پر مینسن فیملی کا راج ہوگا۔

حالانکہ چارلس کو جزا و سزا یا خدا سے کچھ لینا دینا نہ تھا لیکن پھر بھی وہ خود کو پیغمبر عیسٰیعلیہ تصور کرنے لگا یا کم ز کم اپنے پیروکاروں کو اس نے یہی باور کرا دیا تھا۔ ان نوجوانوں کے نیم پختہ ذہنوں میں چارلی (چارلس مینسن) پیغمبر عیسٰیعلیہ کی شبیہ تھا۔

وقت گزرتا گیا، جس نسلی جنگ کی پیشنگوئی چارلی نے کی تھی اس کا آغاز سنہ 1969 کی گرمیوں سے ہونا تھا۔ گرمیاں ختم ہونے کو تھیں لیکن جنگ کے شروع ہونے کے دور دور تک آثار نہیں تھے۔ مینسن فیملی میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی کہ ان کے گرو کی پیشنگوئی اب تک پوری نہیں ہوئی تھی۔ بہرحال، اس کا جواز بھی چارلس نے ڈھونڈ نکالا۔

چارلس کے مطابق سیاہ فام کبھی بھی کوئی کام خود نہیں کرسکتے، انہیں سکھانا پڑتا ہے۔ چناچہ مینسن فیملی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاہ فاموں کو بغاوت کے لیے اکسائیں۔ اس کی تکمیل کے لیے چارلس مینسن نے سیلو ڈرائیو کا انتخاب کیا۔ یہ کوئی اتفاقی فیصلہ نہیں تھا۔ چارلس مینسن کے ماضی کا ایک مختصر حصّہ اس مینشن سے جڑا تھا۔ رومن پولانسکی سے پہلے سیلو ڈرائیو، ریکارڈ پروڈیوسر ٹیری ملچر کی رہائش تھا۔ مختلف موسیقار رابطوں کے ذریعے چارلس کی رسائی ٹیری تک ہوئی لیکن ٹیری کی عدم دلچسپی کی بنا پر چارلس کا عظیم موسیقار بننے کا سپنا پورا نہ ہوسکا۔

سیلو ڈرائیو، چارلس کے لیے ایک اور ناکامی کی نشانی تھی۔ اس کے رہائشیوں کا قتل کر کے چارلس نے اپنی دانست میں اسی کا بدلہ لیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس نے اپنے پیروکاروں کا استعمال کیا اور خود پیش منظر سے اوجھل رہا۔

اتنے گھناؤنے قتل کے باوجود چارلس اپنے پیروکاروں کی کارروائی سے مطمئن نہیں تھا اور اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کے چانسز بھی کم تھے۔ چناچہ اگلی ہی رات لینو لابیانکا کے گھر پر حملہ کر کے دونوں میاں بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ چارلس نے روزمیری کا بٹوہ چرا کر ایک سب۔سٹیشن کے ریسٹ روم میں رکھوا دیا تاکہ یہ کسی سیاہ فام کے ہاتھ لگ جائے اور اس طرح واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو بالآخر نسلی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

جاری ہے...

یہ اس بلاگ کا پہلا حصّہ ہے، دوسرے حصّے کے لیے کلک کریں

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Assad Dec 04, 2014 07:32pm
Kiya yar ak he bar sari kahani likhty ... Jarri hay parh kar sara mza garat ho gya .
Sheikh Dec 05, 2014 11:28am
Please publish its remaining part
Libra Dec 05, 2014 02:32pm
its interesting one..... please upload rest of the part........
Abdul Dec 05, 2014 11:03pm
continue kry iske khani or ak he br makmal krty hi wrna maza khrab ho jta hi

کارٹون

کارٹون : 13 اپریل 2025
کارٹون : 12 اپریل 2025