’پروین رحمان کے پاس قبضہ شدہ زمینوں کے نقشے موجود تھے‘
اسلام آباد: ایک سینئر پولیس افسر نے سپریم کورٹ کو بدھ کو بتایا کہ مقتول سماجی کارکن پروین رحمان کے پاس ان تمام زمینوں کے نقشوں کی تفصیلات موجود تھیں جن پر مختلف سیاسی جماعتوں یا ان سے منسلک گروپوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
ڈی آئی جی کراچی سلطان خواجہ کے مطابق اس بات کا انکشاف پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے سینیٹر سے رابطہ کیا جنہوں نے پروین رحمان کی بہت تعریف کی اور انکشاف کیا کہ پروین کے پاس کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکنے والے افراد کی جانب سے زمینوں پر کیے جانے والے غیر قانونی قبضے اور اس کے نقشوں کی مکمل تفصیلات موجود تھیں۔
پروین رحمان قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر نے چیف کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا کہ ہم وہ نقشے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سماجی کارکن کو 13 مارچ 2013 کو دفتر سے گھر واپس آتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔
ملزمان نے بنارس فلائی اوور کے قریب مرکزی منگھوپیر روڈ پر ان کی کار پر اندھا دھند فائرنگ کی، ان کی گردن میں گولیاں لگیں اور فوری طور پر عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئیں۔
بدھ کو مقدمے کی سماعت کے موقع پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پولیس کو زمنوں پر قبضہ کرنے والوں کے حوالے سے مکمل معلومات ہوتی ہیں اور زیادہ تر مقدمات میں وہ ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ڈی آئی جی سلطان نے عدالت کو بتایا کہ پروین رحما کے رشتے داروں میں سے پانچ افارد کے بیان لیے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقتولہ کراچی کے نواح میں واقع تمام کچی بستیوں اور گوٹھوں ریگولرائزیشن کی خواہاں تھیں تاہم ان کے قتل کے بعد سے یہ معاملہ التوا میں پڑ گیا ہے۔
ڈی آئی جی نے عدالت کو مزید بتایا کہ سماجی کارکن نے ایک خط بھی لکھا تھا جو ان کی بہن عقیلہ اسماعیل کے پاس موجود ہے جس میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر وہ مر گئیں تو ریگلرائزیشن شاید کبھی بھی مکمل نہ ہو سکے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم رحیم سواتی نے پروین رحمان کے قتل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور وہ مقتولہ کے گھر کے پاس ہی رہتا تھا، لیکن پولیس کو اطکلاع ملی ہے کہ اب وہ شمالی علاقہ جات میں جا کر چھپ گیا ہے تاہم ہم اسے ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
بعدازاں عدالت نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید وقت دیتے ہوئے سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کردی۔