تبلیغی جماعت: خاموش تبدیلی کی گونج
محمد غفران کو دنیا کے سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں مسلم برادری کے اثررسوخ میں کمی کی وجوہات کو بیان کرنے میں چند سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں لگا" ہم اسلام کے 'حقیقی راستے' سے اتفاق نہ کرنے کے باعث اپنی منزل سے بھٹک چکے ہیں"۔
اتوار کو رائے ونڈ میں ہونے والے سالانہ تبلیغی اجتماع کے پہلے مرحلے کے آخری روز ڈان سے بات کرتے ہوئے محمد غفران نے ان خیالات کا اظہار کیا، اجتماع کا دوسرا مرحلہ آج سے شروع ہورہا ہے۔
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے سرکاری اسکول کے اس 32 سالہ استاد، جو اپنی ہفتہ وار تعطیلات اپنے ساتھی مسلمانوں کی 'اصلاح' کرتے ہوئے گزارتا ہے، واحد فرد نہیں جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ پاکر دنیا میں بالادستی حاصل کرسکتے ہیں تاہم اس کے لیے انہیں اسلام کے حقیقی راستے کی جانب واپس لوٹنا ہوگا۔
دنیا میں دعوت کی مسلمانوں کی سب سے بڑی تحریک تبلیغی جماعت کے حامی لاکھوں افراد بھی غفران جیسے خیالات کو شیئر کرتے ہیں اور عالمی سطح پر مسلم معاشروں و برادریوں میں تبلیغ کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس جماعت کی بنیاد سہارن پور سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد الیاس نے رکھی تھی تاکہ اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے ساتھ دیگر مذاہب خاص طور پر ہندو مذہب کے رنگ میں رنگ جانے والے مسلمانوں کو واپس اصل راستے پر لایا جاسکے، ابتدائی عرصے میں اس جماعت کا اثررسوخ بہت سست روی سے بڑھا تاہم برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اب یہ دنیا بھر میں کام ررہی ہے، مگر ثقافتی ماہر ارسلان خان کے مطابق اب بھی "اس کی جڑیں جنوبی ایشیاءمیں برقرار ہے اور اس کی قیادت کا تعلق بھی برصغیر سے ہی ہوتا ہے"۔
ارسلان خان نے اس تحریک پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب کراچی کے بزنس ایڈمنسٹریشن انسٹیٹوٹ میں پڑھا رہے ہیں، آج حج کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان میں ہونے والے تبلیغی جماعت کے اجتماع مسلمانوں کے دوسرے اور تیسرے بڑے اجتماع بھی ہیں۔
ارسلان خان کے مطابق اس جماعت نے اپنا اسٹرکچر مساجد میں قائم کررکھا ہے جو اس کے بنیادی یونٹ کے طور پر کام کرتی ہیں، اس تحریک کی شوریٰ یا قیادت بھی ہے جو عالمی سطح پر کام کرتی ہے مگر " اس کی کوئی مرکزی قیادت نہیں ہر یونٹ قومی، ضلعی، شہر یا دیہات کی سطح پر تبلیغ کے لیے مکمل طور پر خودمختار ہے"۔
یہ تحریک عسکریت پسند گروپس کا بھی ہدف رہی ہے اور اس پر سب سے حالیہ حملہ پشاور میں اس کے مرکز پرہوا، ارسلان خان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کی جانب سے اسلامی بحالی کے لیے کسی بھی قسم کے پرتشدد طریقہ کار کو رد کردیا جاتا ہے،تاہم یہ حالیہ برسوں کے دہشت گردی کے ماہرین اور عالموں کی توجہ کا مرکز بنی ہے کیونکہ اس میں شامل کچھ افراد پر کچھ یورپی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات لگے ہیں۔
مگر اس کے باوجود بھی اس تحریک پر دہشت گردی کی معاونت کرنے کا الزام کبھی نہیں لگایا گیا مگر کچھ حلقوں میں یہ خوف ہے کہ یہ عسکریت پسندوں کے اچھا ماحول تشکیل نہ دیدے۔
بائیں بازو کی عوامی ورکرز پارٹی(اے ڈبلیو پی) کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا"آپ اس خدشے کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اس کے اقدامات انتہاپسند گروپس اور تنظیموں کی افزائش کا موقع فراہم کرتے ہیں"۔
ان کا الزام تھا کہ" ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ رائے ونڈ اجتماع کو عسکریت پسند گروپس نئے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں"۔
لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر نے نام چھپانے کی شرط پر اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ تحریک بظاہر اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے پرامن ہے مگر اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ عسکریت پسند باآسانی اسے کور کے طور پر استعمال کرکے بیرون ملک سفر کرسکتے ہیں"تو یہ حیرت انگیز نہیں کہ اس سے متعلق افراد سے یورپ یا کہیں اور دہشت گردی کی تحقیقات کی گئی"۔
یہاں تک کہ سیاست سے دوری کے اس جماعت کے عزم نے بھی متعدد کو شکوک میں مبتلا کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تحریک ملکی معاشرے کی جڑوں میں گہری ثقافتی تبدیلی لائی ہے جس سے سیاست میں دائیں بازو کے نظرئیے کو نئی زندگی ملی ہے، فاروق طارق کے مطابق"اس نے ہمارے معاشرے کو انتہاپسندانہ نظرئیے اور مذہبی بنیاد پرستی کی جانب لے جانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے"۔
فاروق طارق نے مزید کہا کہ دائیں بازو کی جماعتیں جیسے مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف تبلیغی جماعت کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان جماعتوں کو معاشرتی نظریات دائیں بازو کی جانب جانے سے براہ راست فائدہ ہوتا ہے۔
دیگر جیسے لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اس جماعت میں فرقہ وارانہ تقسیم بڑھنے کے خیال سے فکرمند ہیں، باضابطہ طور پر یہ تحریک فرقہ وارانہ مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے مگر پروفیسر کا کہنا ہے کہ "غیراعلانیہ" طور پر اس کی رکنیت سختی سے فرقہ وارانہ بنیاد پر لوگوں کے منسلک یا فرقے کو دیکھ کر دی جاتی ہے۔
ارسلان خان بھی اتفاق کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں انفرادی سطح پر فرقہ وارانہ عنصر موجود ہوسکتا ہے مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گروپ کے پورے فیلڈ ورک میں انہوں نے کبھی بھی کسی رہنماءسے فرقہ وارانہ خطاب نہیں سنا۔
تبصرے (16) بند ہیں