• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مِس امپورٹنٹ سوال بتا دیں!

شائع November 20, 2014
پاکستان کا تعلیمی نظام بوسیدہ امتحانی طریقہ کار اور پڑھانے کے لاحاصل طریقوں کی وجہ سے فائدے مند نہیں رہا ہے — فوٹو اے پی پی
پاکستان کا تعلیمی نظام بوسیدہ امتحانی طریقہ کار اور پڑھانے کے لاحاصل طریقوں کی وجہ سے فائدے مند نہیں رہا ہے — فوٹو اے پی پی

'مس! امپورٹنٹ سوال بتا دیں'۔

اگر آپ پاکستان کے سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں سے پڑھے ہوئے ہیں، تو آپ اس جملے سے اچھی طرح واقف ہی ہوں گے۔

یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ امتحانات سے پہلے طلبا اپنے ٹیچرز سے پوچھتے ہیں کہ کون سے ٹاپک اور سوالات امتحانی نقطہ نظر سے اہم ہیں، اور جواباً ٹیچرز بھی کچھ ٹاپکس کا انتخاب کرکے طلبا کو بتا دیتے ہیں کہ یہ سوالات زیادہ اہم ہیں، یعنی ان کے امتحان میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اس کی وجہ سے طلبا اس محنت اور مشقت سے بچ جاتے ہیں، جو پورے سلیبس میں موجود تمام ٹاپکس پڑھنے میں لگتی ہے۔

میں نے بھی پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہے، اور سرکاری اور پرائیویٹ دونوں ہی طرح کے اسکولوں سے پڑھا ہے۔ دوسرے بچوں کی طرح مجھے بھی بہت اچھا لگتا تھا جب ٹیچرز امتحانات کے لیے آسان ٹاپک پڑھنے کے لیے کہتے تھے۔ زیادہ تر ٹیچرز کو 'امتحانات کے لیے اہم' ٹاپکس کی لسٹ بتانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا، جبکہ شاید ہی کوئی ٹیچر اس بات پر زور دیتا کہ سارا کورس پڑھا جائے۔

یہ سلسلہ بورڈ کے امتحانات میں بھی چلتا رہا۔ میں نے میٹرک اور انٹر بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سے کیا ہے۔ نویں، دسویں، گیارہویں، اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں سب ہی نے گذشتہ سالوں کے امتحانات (past papers) سے مدد لی۔ ان پاسٹ پیپرز میں پچھلے 3 سال، 5 سال، اور 10 سال کے دوران بورڈ کے تمام مضامین کے سوالنامے موجود ہوتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ بورڈ کے پاس بھی 'اہم سوالات' کی اپنی ایک لسٹ ہے، جس میں سے ہر سال کچھ سوالات کا انتخاب کیا جاتا ہے، اور سوالنامہ پرنٹ کر کے اسے امتحان کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنا بہت آسان ہے۔ پاسٹ پیپرز اٹھائیں، اور چیک کر لیں کہ وہی سوالات بار بار دہرائے جاتے ہیں، اور اس بات کی گارنٹی ہے کہ اگر آپ نے پاسٹ پیپرز سے تیاری کی ہے، تو امتحان میں کئی سوالات آپ کے اندازے کے مطابق ہی آئیں گے۔

ہم نے امتحان بھی پاس کر لیا، اور A گریڈ بھی حاصل کر لیا۔

آپ پوچھیں گے کہ پھر آخر مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ اہم سوالات سے امتحانات کی تیاری کرنے، گیس پیپرز اور پاسٹ پیپرز کو کھنگالنے، اور اندازوں کی بنا پر بورڈ کے امتحانات پاس کر لینے سے وہ مقصد نہیں حاصل ہوپاتا، جو کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے، یعنی کسی بھی شخص کی سوچنے، سوال کرنے، اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی قابلیت کو بڑھانا۔

پاکستان میں کیمبرج سسٹم کے علاوہ تمام پرائمری اور سیکنڈری تعلیم صرف اور صرف سلیبس کو رٹنے پر ہی زور دیتی ہے۔

طلبا اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوالات اسی طرز کے ہوں گے جس میں کتاب سے ایک لمبی چوڑی ڈیفی نیشن لکھنی پڑے گی، اس لیے اس کو یاد کرلیا جاتا ہے، اور ٹاپک سمجھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس طرح کے امتحانات بچوں کو اس بات کے لیے پروگرام کردیتے ہیں کہ کتاب سے کاپی کرنا ہے، اور امتحان میں پیسٹ کردینا ہے۔

یہ مسئلہ صرف سیکنڈری ایجوکیشن تک محدود نہیں ہے۔ کئی یونیورسٹیوں میں بھی یہی ٹرینڈ عام ہے۔ کچھ کو چھوڑ کر کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی طلبا کو پاس ہونے کے لیے رٹے کی مدد لینے پر ابھارتے ہیں۔

میں نے سندھ کی کئی سرکاری یونیورسٹیوں کے سوالنامے دیکھے ہیں۔ ان میں سوالنامے تقریباً اسی طرز کے ہوتے ہیں جس طرح بورڈ کے امتحانات میں ہوتے ہیں۔ 'تفصیل سے بیان کریں' وغیرہ جیسے مبہم جملوں کی وجہ سے طلبا اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مٹیریل 'یاد' کریں، بجائے اس کے کہ چھوٹا، لیکن سمجھ کر لکھیں۔ کیونکہ اس طرح کے سوالات میں زیادہ نمبر انہی طلبا کو ملتے ہیں جنہوں نے 'زیادہ' لکھا ہوتا ہے۔

لیکن میں ایک بار پھر اپنا جملہ دہرانا چاہتا ہوں۔

یہ مسئلہ صرف سیکنڈری ایجوکیشن تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ یونیورسٹی سطح تک بھی محدود نہیں ہے۔

پاکستان کا اعلیٰ ترین امتحان سی ایس ایس بھی اسی رٹا کلچر کو فروغ دیتا ہے، اور اس کے پاس بھی اپنے کچھ 'اہم سوالات' کی لسٹ موجود ہے، جس میں سے سوالات اٹھا کر سوالنامے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

سی ایس ایس امتحانات کرانے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ سے پچھلے کچھ سالوں کے مختلف مضامین کے سوالناموں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کئی سوالات بار بار امتحانی پرچے کی زینت بنتے ہیں۔

مثال کے طور پر 2009 میں اسلامیات کے پرچے میں اجتہاد پر سوال ان الفاظ میں آیا۔

Source: http://www.fpsc.gov.pk/icms/user/page.php?page_id=753

اور 2011 میں ایک بار پھر،

Source: http://www.fpsc.gov.pk/icms/user/page.php?page_id=833

چلیں اب جنرل نالج-1 (ایوری ڈے سائنس) کی بات کرتے ہیں۔ 2010 میں جراثیم کش ادویات (pesticides) پر سوال کچھ ان الفاظ میں آیا۔

Source: http://www.fpsc.gov.pk/icms/user/page.php?page_id=813

اور اس کے بعد 2013 میں پھر سے یہی سوال کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ۔

Source: http://www.fpsc.gov.pk/icms/user/page.php?page_id=953

سی ایس ایس کے باقی مضامین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ تو صرف پچھلے چار سالوں، 2009، 2010، 2011، اور 2013 کے صرف دو مضامین کی مثال ہے، اور یہ سوالنامے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ایف پی ایس سی کے علاوہ دیگر ویب سائٹس پر باقاعدہ لسٹیں مرتب کی گئی ہیں کہ کون سے سوالات بار بار امتحانات میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے طلبا کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سے سوالات اہم ہیں، اور ان کی تیاری کر کے کم از کم کچھ سوالات تو حل کر ہی لیے جائیں گے۔

یہ پاکستان کا اعلیٰ ترین امتحان ہے، جس میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو اہم ملکی عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ہمارے بوسیدہ امتحانی سسٹم کا ایک خاصہ یہ بھی ہے، کہ اس میں ہر سوال پر دیے جانے والے نمبروں کی ایک بہت بڑی رینج ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 16 نمبر کا سوال۔ اب صفر سے لے کر 16 تک میں سے کوئی بھی جواب کتنے نمبروں کا حقدار ہے، اس معاملے میں انصاف کرنا بہت مشکل ہے۔ مارکس کا یہ مسئلہ نا صرف بورڈ کے امتحانات میں، بلکہ سی ایس ایس کے امتحان میں بھی موجود ہے۔

مارکس کس طرح دیے جائیں گے، کس طرح کا جواب 15 اور کس طرح کا جواب 15.5 نمبر حاصل کرسکتا ہے، طلبا کو اس بات کی معلومات ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن ایسا کوئی بھی فریم ورک دستیاب نہیں ہے۔ اس کے بجائے امتحان چیک کرنے والے اپنی مرضی سے کتنے بھی نمبر دینے کے لیے آزاد ہیں، اور نمبر حاصل کرنے کے لیے لکھائی کا خوبصورت ہونا بھی اہم ہے۔

امتحان چیک کرنے والے کے نظریات اور سمجھ کا مارکس دیے جانے میں اہم کردار ہے۔ کسی شخص کے نزدیک جو جواب بہترین اور سمجھداری سے لکھا گیا ہے، دوسرے شخص کے لیے وہی جواب بے تکا بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ اس معاملے میں کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔

اور ظاہر سی بات ہے کہ اس سے طلبا کی پوزیشنز پر اثر پڑ سکتا ہے، اور پڑتا بھی ہے۔

یہ تمام چیزیں مل کر ہر سال تنقیدی سوچ کو بڑھنے سے روکتی ہیں، جبکہ ان کی وجہ سے امتحانات کی شفافیت، مقصدیت، اور منصفانہ ہونے پر سوالات اٹھتے ہیں۔

ہمارے امتحانی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ طلبا سے 'تفصیل سے بیان کریں' کہا جائے، کہا یہ جانا چاہیے کہ اپنے جواب کے حق میں مضبوط دلائل پیش کریں۔

جب تک یہ نہیں ہوتا، تب تک ہم اپنے بچوں کو اس بات کے لیے الزام نہیں دے سکتے کہ انہیں فزکس اور میتھمیٹکس کے فارمولے تو اچھی طرح یاد ہیں، لیکن انہیں ان کے پیچھے موجود منطق معلوم نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

بلال کریم مغل

بلال کریم مغل ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

اکمل سومرو Nov 22, 2014 06:01pm
سیاسی حکومتوں اور آمریت کے ادوار میں امتحانی طریقہ کار کو بدلنے کو کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔رٹا سسٹم کے ذریعے سے ہمیں ایسے گریجویٹ یا تعلیم یافتہ افرادی قوت فراہم کی جارہی ہے جو ذہنی طور پر اپاہج ہے اس نسل کو سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا درست تناظر میں ادارک تک نہیں ہوتا۔ سلیبس کی تیاری میں اگرچے دس سے زائد مضمون کے ماہر شامل ہوتے ہیں تاہم نصاب کی تیاری رٹا سسٹم کے تناظر میں ہی کی جاتی ہے۔ یہی سسٹم لارڈ میکالے نے اپنی تعلیمی یاداشت کی بنیاد پر تجویز کیا تھا اور اسی تناظر میں نوآبادیاتی دور میں نصاب تعلیم تیار کیا گیا۔رٹا سسٹم کی اس تاریخ کے تسلسل کو پاکستان نے گزشتہ سٹرسٹھ برسوں سے جاری رکھا ہوا ہے اسی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان سیاسی بے شعور اور کم فہم ہوتا ہے۔ گولڈ میڈلز لینے والے ایسے تمام ذہین فتین طلباء رٹا سسٹم کی ہی پیداوار ہیں جو حالات حاضرہ سے بے خبر اور رٹے کی دُنیا میں مست ہوتے ہیں۔ نظام امتحان کو بدلنے میں حکومت نے کبھی دلچسپی ہی نہیں لی کیونکہ اسی میں انکا مفاد ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024