پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران میں نے خواتین کے دو بالکل مختلف و متضاد رویے دیکھے۔ میں جب بھی کسی ایسی عورت سے ملتی جو معاشرے کے تمام رسوم و رواج سے ہٹ کر، تبدیلی کی طرف گامزن ہوتی، تو اس کے مقابلے میں ایک اور ایسی عورت ملتی، جو انہی روایتی چیزوں میں دلچسپی رکھنے والی ہوتی۔
دوسری طرح کی خواتین اسٹیٹس کو سے مطمئن نظر آتیں، جبکہ پہلی خواتین اسے تبدیل کرنے کے لیے پرعزم۔
پاکستان کو خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔ سال 2013 میں 1061 خواتین کی غیرت اور دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کی وجہ سے ایسا کہنا غلط بھی نہیں ہے۔
لیکن اسلام آباد میں ایک سال تک رہنے اور کام کرنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے مقام کے بارے میں اتنا مایوس و ناامید ہونا بھی ٹھیک نہیں ہے، بھلے ہی شماریات کتنے ہی مایوس کن ہوں۔
یہ مردوں کی دنیا ہے، اور پاکستان میں تو یہ کچھ زیادہ ہی ہے، لیکن خواتین اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ وہ اس ملک میں صرف تماشائی نہیں ہیں۔
شیرل سینڈبرگ کے مطابق اب خواتین ہر جگہ نظر آنے لگی ہیں، چاہے وہ اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھالنا ہو، چوٹی کی کارپوریشنز میں کام کرنا ہو، یا این جی او ورکرز کے روپ میں ملک کے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا ہو۔
پڑھیے: خواتین اسٹاف پر مشتمل پہلا ملکی پٹرول پمپ
پاکستان کی قومی اسمبلی کی 340 سیٹوں میں سے 60 سیٹیں خواتین کی ہیں۔ 2012 میں 86 فیصد بچیاں پرائمری اسکولوں میں داخل ہوئیں تھیں۔ یہ شرح پچھلی دہائی کی شرح 62 فیصد سے کافی زیادہ ہے۔
1993 میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں طلبا کی مجموعی تعداد میں سے 22 فیصد لڑکیاں تھیں، جبکہ یہ تعداد 2012 میں 47 فیصد ہوچکی ہے۔
ملک کا سب سے بڑا بینک، حبیب بینک لمیٹیڈ 50 فیصد فیمیل ایم بی اے گریجویٹس کو بھرتی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اینگرو کیمیکلز میں 100 خواتین مینیجمنٹ پوزیشنز پر موجود ہیں۔ خواتین کی ان اونچی اور اہم پوزیشنز پر موجودگی کے باعث کمپنی نے گزشتہ سال کام کے لچکدار اوقات، ایک ڈے کیئر سینٹر، اور خواتین ملازمین کے لیے ایک سپورٹ گروپ متعارف کرایا ہے۔
لیکن ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں لیبر فورس میں خواتین کی تعداد 2009 سے 2013 تک اوسطاً صرف 24 فیصد رہی ہے جو کہ دنیا میں کم ترین شرح میں سے ہے۔
کام کرنے والی ان خواتین کا زیادہ تر حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے، جہاں اس تعداد کا تین تہائی زراعت سے وابستہ ہے۔ ان خواتین کے سینیئر اور بااثر عہدوں تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے راستے کی رکاوٹیں ہٹائی جائیں، تاکہ یہ بھی شہری ورک فورس کا حصہ بن سکیں۔
تو اس سب کو تبدیل کرنے کے لیے ہم کہاں سے شروع کریں؟
میں خوش قسمت تھی کہ اپنی جاب کے ذریعے مجھے ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ روز صبح 5 بجے اٹھتیں، اپنے بڑے سے خاندان کے لیے ناشتہ تیار کرتیں، اور پھر وقت پر کام پر پہنچنے کے لیے اپنے گاؤں سے نکل پڑتیں۔
مزید پڑھیے: مارچ، دھرنے، اور خواتین
انہوں نے مجھے کام کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کے بارے میں بتایا۔ ان کے سسرالی اس کے خلاف تھے، ان کے شوہر اس کے خلاف تھے، پوری برادری ہی اس کے خلاف تھی۔
لیکن وہ اپنے عزم پر قائم رہیں، اور کام کرتی رہیں، بھلے ہی اس کے لیے انہیں اپنے شوہر کے خاندان سے دور ہونا پڑا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر تیار ہوگئے، کیونکہ گھر آتی ہوئی آمدنی کسی کو بھی راضی کرسکتی ہے۔
مردوں کے اس معاشرے میں اس عورت کا موقف کس قدر انقلابی تھا، یہ دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اس فیصلے کے اثرات صرف ان کی ذات تک نہیں، بلکہ ان کے پورے خاندان اور ان کی آئندہ نسلوں تک بھی پھیلیں گے۔
ان کی بیٹیاں نئے امکانات کا سامنا کریں گی، ان کے پاس وہ مواقع ہوں گے جو ان کی ماں کے پاس نہیں تھے، صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی اور پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔
مجھے امید ہے کہ پاکستانی خواتین کی یہ نسل وہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کی اس سوسائٹی کو اشد ضرورت ہے۔
جن خواتین سے میں ملی ہوں، ان کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ ایسی زندگی جیئں گی، جو ان کی اپنی ہوگی، نہ کہ رسوم و رواج اور خواتین کو کمتر سمجھنے والے سسٹم کے تحت۔
پاکستان آہستہ آہستہ تبدیل ہورہا ہے، اسے صرف بھیڑیوں کے ساتھ مزید خواتین کے چلنے کی ضرورت ہے۔