زیبا بختیار : ایک لیجنڈ
کراچی کی ایک گلی میں ڈرائیونگ کے دوران میں نے خزاں زدہ پتوں کی صفائی میں مصروف ایک شخص سے ایک رہائشی پتا دریافت کیا، اس نے چیخ کر گلی میں موجود ایک اور شخص سے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ گھر زیبا بختیار کا ہی ہے، دوسرے شخص نے کچھ سوچا اور پھر زیبا کے گھر کی نشاندہی کردی، اس سے مجھے یاد آیا کہ ممبئی میں کس طرح لوگ مجھے فلمی ستاروں کے گھروں کا راستہ بتاتے ہیں، وہاں کا حال بالکل مختلف لگتا ہے۔
پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر سے 1988 میں 'انارکلی' ڈرامے کے ذریعے اپنے کرئیر کے آغاز کے بعد زیبا بختیار پہلی پاکستانی اداکار بنیں جنھیں بولی وڈ میں راج کپور کی فلم حنا (1991) میں کام کرنے کا موقع ملا، بعد میں انہوں نے پاکستانی پروڈکشن سرگم (1995) میں بھی کام کیا، اس دورانیے میں عدنان سمیع کے ساتھ شادی اور طلاق جیسے ہنگامہ خیز دور اور اپنے بیٹے کی کسٹڈی کا مقدمہ جیتنے میں کامیابی حاصل کی اور اب وہ ایک بار پھر منظرعام پر اپنے بیٹے اذان سمیع خان کے ساتھ مشترکہ طور پر لولی وڈ فلم آپریشن 021 بنا کر آئی ہیں۔
اس فلم پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا مگر زیبا کے لیے وہ فلم متعدد وجوہات کی بنا پر آنکھیں کھول دینے والا تجربہ ثابت ہوا ہے"اس فلم کا موضوع ایک تلخ حقیقت کے گرد گھومتا ہے جس کا ہمیں سامنا ہے اور ہم اس سے اسی کی دہائی سے متاثر ہو رہے ہیں، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کے لیے زیادہ مشکل ثابت ہونے والا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر لوگوں نے فلم کو پسند کیا ہے یہ بہت خوشی کا باعث ہے کہ لوگ فون کرکے سراہتے ہیں، مجھے اس کی بالکل بھی توقع نہ تھی تاہم دس فیصد لوگوں کو وہ پسند نہیں آئی"۔
زیبا کا ماننا ہے کہ آپریشن 021 وہ فلم ہے جو توجہ مانگتی ہے"اس کو دیکھنے کے دوران آپ کو اپنی پوری توجہ اس پر مرکوز کرنا ہوگی، میں نے اس فلم کو کم از کم آٹھ سے نو بار دیکھا ہے، ہماری زندگیوں کو پاکستان کے ارگرد اور خطے کی موجودہ صورتحال کے باعث مسائل کا سامنا ہے، ہم میں سے بیشتر سازشی خیالات کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ہم ہر چیز کو سیاست زدہ کرنے سے محبت کرتے ہیں، جب حقائق آپ کے سامنے بڑی اسکرین پر منہ کھولے نظر آئیں تب آپ سوچتے ہیں شاید آپ اس بارے میں سب کچھ نہیں جاننا جانتے کیونکہ کچھ زیادہ تباہی کے مناظر انہیں زیادہ نہیں بھاتے"۔
یہ الزامات کہ فلم تو خوبصورتی سے بنائی گئی تاہم اس میں مضبوط یا ٹھوس کہانی کی کمی ہے، کی تردید کرتے ہوئے زیبا کہتی ہیں "یہ بہت سنجیدہ کہانی ہے"۔
فلم کے اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر سمرنکس کے ملک سے چلے جانے اور جمشید محمود (جامی) کا ان کی جگہ لینے کے بعد پلاٹ اور کرداروں میں تبدیلی کی باتوں کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں "ہم اب تک رائٹر سے رابطے میں ہیں، سمر کو ویزے کے مسائل کے باعث دو روز میں ہی آسٹریلیا واپس جانا پڑا، اس کے جانے کے بعد اذان اور جامی نے اسکرپٹ کو تحریر کیا، اس اسکرپٹ میں 'وار' کی ریلیز کی بعد مزید تبدیلیاں کی گئیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ دونوں فلموں میں مماثلت نظر آئے، شان ان دونوں فلموں میں تھے اور وہ شان کی طرح نظر آنا اور ایکٹنگ کرنا چاہتے تھے"۔
کیا شان ہی اس فلم کے لیے مرکزی کردار کے لیے اولین ترجیح تھے؟
زیبا "شان زبردست اداکار ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، ان کی طرح کا کوئی اور اداکار پاکستان میں موجود نہیں، کوئی ایسا جو کیمرہ اور اسکرین کی ٹیکنیکل مہارت رکھتا ہو، ان کا ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا ہوا ہوتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا "اگر آپ ہمارے پاس موجود آپشنز کو دیکھیں تو شان ہی آپ کو اوپر نظر آئیں گے، آخر شان، شان ہیں اور لوگ ٹی وی اسٹارز کو سلور اسکرین پر دیکھنا پسند نہیں کرتے، آخر کوئی کیوں سینما جا کر ان لوگوں کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدے گا جو وہ اپنے گھر میں ٹی وی پر بھی دیکھتے ہیں؟
جب ہم نے آمنہ شیخ کے کام کے بارے میں پوچھا تو زیبا کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم انہوں نے اذان کے بطور پروڈیوسر کے بارے میں کافی کچھ بتایا "یہ سب سے بہترین پروڈکشن تھی جو میں نے دیکھی اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کیونکہ اذان میرا بیٹا ہے، جب اس فلم کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی تو فیلوشپ کے لیے گئی ہوئی تھی اور جب میں واپس آئی تو پتا چلا کہ فلم کی شوٹنگ اس تاریخ کو شروع ہو رہی ہے اور مجھے پروڈکشن کے یہ امور سنبھالنے ہیں، میرے ارگرد ایسے کالجوں کے طالبعلم بھرے پڑے تھے جو لیپ ٹاپس پر کام کرتے رہتے تھے اور اس نسل کے ساتھ میں نے کبھی کام نہیں کیا تھا، مجھے اپنی پرانی ذہنیت سے جنگ لڑنا پڑی کیونکہ اس طرح کی صورتحال ہم جیسے لوگوں کو کافی خوفزدہ بھی کر دیتی ہے"۔
آپریشن 021 سے حاصل ہونے والے سبق کے سوال پر زیبا نے کافی ڈپلومیسی سے جواب دیا "ایک پراجیکٹ یا اس پیمانے کی فلم لوگوں اور اداروں کے ساتھ روابط کا تجربہ ثابت ہوتا ہے اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں آپ کو کس کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور کس کے ساتھ نہیں"۔
دختر کی آسکر میں نامزدگی کے بارے میں انہوں نے کہا "ہم عید پر ریلیز چاہتے تھے تو ہم اپنے شیڈول میں پھنس گئے اور دختر آسکر نامزدگی کے لیے چلی گئی، میں نے اسے دیکھا نہیں مگر پاکستان کی نمائندگی سب سے زیادہ اہم ہے، 021 کی نامزدگی یقیناً اچھا تجربہ ہوتا مگر اب ایسا نہیں ہوسکتا"۔
اگرچہ لیجنڈ راج کپور نے زیبا کو اپنی فلم کے لیے منتخب کیا تھا تاہم اداکاری زیبا کا شوق نہیں تھا "میں اداکاری کے خلاف نہیں مگر پروڈکشن یونٹ کا حصہ بن کر مجھے زیادہ مزہ آیا ہے، میک اپ چڑھانا اور کیمرے کے سامنے آنا ایک عام چیز ہے، لوگ مجھ سے اب بھی پوچھتے ہیں کہ میں کیمرے کے سامنے کب واپس آرہی ہوں، مگر حنا کی اہمیت مجھ سے زیادہ تھی، میں اس سے سے جڑنے کے قابل ہوگئی تھی، تاہم اس کے بعد مجھے یہ احساس ستاتا رہا کہ میں بار بار ایک ہی کردار 26 سال سے دوہرائے چلی جا رہی ہوں، یعنی فرمانبردار مشرقی عورت جو ہر ماحول میں جذب ہوجاتی ہے اور قربانیاں دیتی رہتی ہے اور لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کردار کی ساخت یکساں ہوتی ہے اور اس میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی"۔
زیبا راج کپور کی فلموں میں دکھائے جانے والے عریاں پن کے رجحان سے بچ نکلی تھیں "حنا کسی بھی طرح بے باک یا عریاں فلم نہیں تھی، رندھیر بہت محتاط تھے کیونکہ وہ کوئی مسئلہ نہیں چاہتے تھے، میں اپنے کندھوں پر پاکستانی عورت کی عزت لے کر وہاں گئی تھی مجھے اپنا ہر قدم اسی کی روشنی کو دیکھتے ہوئے رکھنا پڑتا تھا، میرے آخری مناظر میں مجھے آف وائٹ لباس پہننا تھا جو کہ بڑا مسئلہ بن گیا کیونکہ مجھے تین تہوں پر مشتمل لباس بمبئی کی شدید گرمی میں پہننا پڑا، وہ کسی جہنم سے کم نہیں تھا تاہم اپنے خاندان میں باوقار واپس آنا میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا"۔
آخر ہماری لڑکیاں آج بولی وڈ میں یہ سوچ کیوں نہیں رکھتیں؟ "کیونکہ وہ 'نمبرون' بننا چاہتی ہیں"۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے دوبارہ شادی کیوں نہیں کی "جب آپ کے والد انتہائی کامیاب ہوں تو کسی ایسے مرد کی تلاش بہت مشکل ہوجاتی ہے جو ان کے برابر ہو، اگر مجھے کوئی شخص ان جیسی شخصیت، وقار اور بااصول مل جاتا تو دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے شادی کرلیتی"۔
وہ پاکستان میں حالات کی بہتری کی خواہشمند ہیں تاہم انہیں لگتا ہے کہ ہمارے عوام کی بلند انا سیکھنے اور ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے "ہم اوسط درجے اور خود کو متاثر کرنے والی چیزوں کو پسند کرتے ہیں، میں نے کافی عرصے پہلے ہی پاکستانی ڈراموں کو دیکھنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتے تھے"۔
انہوں نے مزید کہا "ترک ڈراموں پر ہونے والے ہنگامے کو دیکھئے مثال کے طور پر میں نے ایک ڈرامہ دیکھا جس میں کافی خوش شکل لوگ کام کر رہے تھے جن کے چہروں پر میک اپ کم اور ان کی پروڈکشن تیکینیکی طور پر بہترین تھی، تو ان کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے ڈرامے کا معیار بہتر بنانا چاہئے ناکہ ان سے نفرت کریں، یہی وجہ ہے کہ اب وہ خود میں بہتری لانے پر مجبور ہوگئے ہیں"۔
ان کا کہنا تھا "ہم بنیادی طور پر بہت سست لوگ ہیں اور سخت محنت کرنا پسند نہیں کرتے، لوگ کہتے ہیں آپ نے فلم بنائی بڑی محنت کی، دنیا میں کونسا منصوبہ ہے جو جسمانی، ذہنی اور جذباتی محنت کے بغیر کامیاب ہوسکے؟ آپ ائیرکنڈیشنر کمرے میں بیٹھ کر کامیابی حاصل نہیں کرسکتے، آپ کو ایک فلم بنانے کے لیے کافی ذہنی محنت کرنا پڑتی ہے"۔
تاہم تمام تر سخت محنت کے باوجود زیبا مستقبل میں ایک کے بعد ایک نئی فلمیں بنانے کا عزم رکھتی ہیں۔