پاکستان میں فیس بک مواد پر پابندیوں کی شرح میں دس گنا اضافہ
پاکستانی حکومت نے فیس بک پر مواد تک رسائی پر پابندی کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھا دیا ہے اور اس بات کا انکشاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ کی جانب سے جاری ڈیٹا رپورٹ سے ہوا ہے۔
فیس بک کی گورنمنٹ ریکوئسٹس رپورٹ کے مطابق رواں برس جنوری سے جون تک پاکستانی حکومت کی جانب سے فیس بک کو مواد تک رسائی روکنے کے لیے 1773 درخواستیں دی گئیں جبکہ جولائی سے دسمبر 2013 کے درمیان صرف 162 تھیں۔
``
فیس بک کے بیان کے مطابق ہم نے پاکستان میں بڑی تعداد میں مواد تک رسائی کو روکا ہے جس کی درخواستیں پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے ریاست پر تنقید اور توہین مذہب کے مقامی قوانین کے تحت ارسال کی تھیں۔
فیس بک نے پی ٹی اے کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاکستان کے اندر حکومتی درخواستوں کے مطابق صارفین کے پیجز اور پوسٹس تک رسائی پر پابندی لگائی ہے۔
تاہم فیس بک کی جانب سے پابندی کی زد میں آنے والے مواد کی نوعیت کے بارے میں تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
پاکستان جنوری سے جون 2014 تک فیس بک سے مختلف پوسٹس اور پیجز پر پابندی لگانے کی درخواست کرنے والے دیگر ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رہا۔
``
سب سے زیادہ درخواستیں ہندوستان نے بھیجیں جن کی تعداد 4960 رہی جبکہ ترکی 1893 ایسی درخواستوں کے ساتھ دوسرا بڑا ملک رہا۔
فیس بک ڈیٹا کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران پاکستانی حکومت نے ایک سو ساٹھ صارفین یا اکاﺅنٹس کے ذاتی ڈیٹا کے حصول کے لیے 116 درخواستیں جمع کرائیں جن پر 34.35 فیصد درخواستوں پر ڈیٹا پاکستانی حکومت کے حوالے کیا گیا۔
سنسر شپ کوئی حل نہیں
ڈیجیٹل رائٹس گروپ بائٹس فار آل کے ڈائریکٹر شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پاکستان کو جمہوری ملک قرار دینے کے دعوے کے برعکس فیس بک کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ یہاں سیاسی خیالات کے اظہار کی آزادی پر روک تھام لگائی جارہی ہے جو کہ جمہوری و سیاسی اقدار کے منافی اور کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس حکومت کو بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سنسر شپ کوئی حل نہیں بلکہ خود مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سیاسی خیالات کے اظہار کو بلاک کرنے کی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں جن میں بلوچستان بھی شامل ہے جہاں دو ماہ قبل متعدد پیجز کو بلاک کردیا گیا تھا، حالانکہ ان میں مذہب کی توہین کے حوالے سے کوئی مواد موجود نہیں تھا بلکہ وہ سیاسی خیالات کے اظہار اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بنائے گئے تھے۔
صارفین کے ڈیٹا کے حصول کے لیے دنیا بھر میں حکومتی درخواستوں میں چوبیس فیصد اضافہ
فیس بک کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے صارفین کی معلومات تک رسائی کی درخواستوں کی شرح میں اضافہ ہوا اور 2014 کے اولین چھ ماہ کے دوران 34 ہزار 946 درخواستیں موصول ہوئیں۔
اس دورانیے کے دوران مقامی قوانین کے باعث مواد تک پابندی کی شرح بھی بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ گئی۔