وزیراعظم نااہلی کیس کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت آج ہوئی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس سرمد جلال اورجسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔
کیس کی گزشتہ سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی تھی۔
بدھ کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ 'حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف سے انھیں کوئی سروکار نہیں' ۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ' آئین پاکستان عوام کی خواہشات کا عکاس ہے'۔
جسٹس جواد کے مطابق 'اٹھارویں ترمیم کی رُو سے جو صادق و امین نہیں رہے گا، وہ رکن اسمبلی بھی نہیں رہے گا اورکسی کو صادق اورامین قراردینا ہمارا ذاتی مطالبہ نہیں ہے '۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ 'آئین میں پہلے صادق اور امین کی شقیں آتی ہیں، صادق اور امین کی شقوں کے بعد رکن اسمبلی کے استثنیٰ سے متعلق شقیں موجود ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ریٹرننگ افسران کی صوابدید ہے کہ کسی کو الیکشن کے لیے اہل یا نااہل قرار دے'۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ 'آئین میں واضح ہے کہ اگر رکن اسمبلی سزایافتہ ہو تو وہ نااہل ہو جائے گا'۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے وزیراعظم کی نااہلی کا ریفرنس مسترد کیے جانے کے حوالے سے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 'بظاہر اسپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ درست لگتا ہے، پہلے کسی مجاز عدالت میں جرم ثابت کیا جائے پھر نااہلی کا مقدمہ اسپیکر کے پاس جائے'۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے 4 سوالات پر معاونت طلب کرلی۔
پہلا سوال یہ تھا کہ اگر کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی درخواست آئے تو اس کی سماعت کا مجاز فورم کون سا ہوگا؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر طے ہو جائے کہ نااہلی کا معاملہ عدالت سنے گی تو وہ کون سی مجازعدالت ہوگی؟
تیسرا سوال یہ تھا کہ کسی رکن اسمبلی کی نااہلی کے لیے مجوزہ طریقہ کار کیا ہوگا؟
چوتھا سوال یہ تھا کہ نااہلی کے لیے مجوزہ طریقہ کار کے ثبوت کیا ہوں گے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت رواں ماہ 10 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تین رکنی بینچ، تین ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔
یہ درخواستیں مسلم لیگ (ق) کے سابق وزیراور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کے رکن اسحاق خاکوانی، مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اورپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انصاف لائرز فورم کے سینئر نائب صدرگوہر نواز سندھو کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
ان درخواستوں میں سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے 29 اگست کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران پاک فوج کے حوالے سے ایک ایسا بیان دیا تھا، جس کی بعد میں پاک فوج کی جانب سے بھی تردید کردی گئی تھی۔
درخواستوں کے مطابق وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں مبینہ طور پر جھوٹ بولا تھا کہ موجودہ سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور حکومت کے درمیان فوج کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے حکومت نے گزارش نہیں کی تھی۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیارکیا تھا کہ اس جھوٹے بیان کے بعد وزیراعظم نواز شریف آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا نہیں اُترتے۔
'وزیراعظم اب صادق اور امین نہیں رہے، لہٰذا انہیں نااہل قرار دیا جائے'۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم نااہلی کیس: نواز شریف کی تقریر کا متن طلب
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور پاکستان عوامی تحریک نے لاہور میں تحریک منہاج القران سیکریٹریٹ پر پولیس کی فائرنگ سے کارکنان کی ہلاکت پر احتجاجاً وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کے استعفی کا مطالبہ کررکھا ہے۔
اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران فوج کی جانب سے حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں کے درمیان معاملہ حل کروانے کے لیے سہولت کار بننے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں بیان بھی دیا کہ فوج سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کی گئی تھی۔
وزیر اعظم کے بیان کے بعد فوج کےترجمان ادارے آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل سے ملاقات میں یہ درخواست کی تھی کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے بطور معاون اپنا کردار ادا کریں۔