پاکستان کے ہاتھوں وائٹ واش ہونے والی ٹیمیں
پاکستان نے اہم باﺅلرز اور بظاہر کمزور نظر آنے والی بیٹنگ کے ساتھ آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کامیابی حاصل کی جسے کپتان مصباح الحق نے گرین شرٹس کی سب سے بہترین کامیابی بھی قرار دیا ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی 62 سالہ تاریخ میں کتنی بار اور کن ٹیموں کے خلاف اس طرح سیریز کے تمام میچز جیتنے میں کامیاب ہوا ہے؟ اور وہ کون سی پہلی ٹیم تھی جسے پاکستان کے ہاتھوں' وائٹ واش' ہونے کا اعزاز ملا؟
گرین شرٹس 1952 سے اب تک 384 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں جس میں سے اس نے 118 جیتے اور 109 میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 155 ڈرا ہوئے تاہم کسی سیریز میں وائٹ واش کامیابی کے لیے پاکستان کو 30 سال تک انتظار کرنا پڑا اور جو ٹیم سب سے پہلے وائٹ واش کا شکار ہوئی وہ کوئی اور نہیں آسٹریلیا ہی تھی۔
اس حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ تین، تین وائٹ واش سیریز میں کامیابی کے ساتھ وقار یونس اور مصباح الحق مشترکہ طور پر اس شعبے میں کامیاب ترین کپتان ہیں۔
پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا 1982
بائیس ستمبر سے 19 اکتوبر 1982 تک کھیلی جانے والی اس تین میچز کی سیریز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت عمران خان کے سپرد تھی اور اس طرح وہ وائٹ واش کامیابی حاصل کرنے والے پہلے کپتان بھی بنے جن کی ٹیم نے آسٹریلیا کو پہلے ٹیسٹ میں نو وکٹوں، دوسرے میں ایک اننگ اور تین رنز جبکہ تیسرے میچ میں بھی نو وکٹوں سے شکست دی۔
اس سیریز میں عبدالقادر نے بائیس کھلاڑیوں کو آﺅٹ کرکے مین آف دی سیریز کا اعزاز اپنے نام کیا۔
پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ 1990
پہلی وائٹ واش کامیابی کے حصول کے بعد پاکستان کو ایک اور سیریز اس انداز میں اپنے نام کرنے میں آٹھ سال کا عرصہ لگا اور 1990 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم اس کا شکار بنی اس بار خوش قسمت کپتان جاوید میاں داد تھے۔
میاں داد کی قیادت میں گرین شرٹس نے دس اکتوبر سے 31 اکتوبر کے درمیان کھیلی جانے والی تین میچز کی سیریز میں کیویز کو آﺅٹ کلاس کردیا، پہلے میچ میں کامیابی ایک اننگ اور 43 رنز سے ملی تو دوسرا میچ نو وکٹوں اور تیسرا 65 رنز سے اپنے نام کیا۔
یہ سیریز بین الاقوامی کرکٹ میں وقار یونس کے عروج کا آغاز ثابت ہوئی جن کی 29 وکٹوں جبکہ بیٹنگ کے شعبے میں 507 رنز بناکر شعیب محمد نے پاکستان کی وائٹ واش کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور یہ دونوں مشترکہ طور پر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
پاکستان بمقابلہ سری لنکا 1994
بنیادی طور پر یہ تین میچز کی سیریز تھی مگر اس کا دوسرا ٹیسٹ بغیر کسی بال کو پھینکے ہی منسوخ کردیا گیا اس طرح یہ دو میچز تک محدود ہوگئی جس میں سلیم ملک کی قیادت میں گرین شرٹس نے میزبان ملک کو وائٹ واش کا مزہ چکھایا۔
نو اگست سے 28 اگست 1994 تک کھیلی جانے والی سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے 301 رنز جبکہ دوسرے میں ایک اننگ 52 رنز سے فتوحات سمیٹیں جبکہ اس سیریز کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وسیم اکرم اور وقار یونس دوسری پاکستانی باﺅلنگ جوڑی بنی جن کا باﺅلنگ اسپیل تبدیل کیے بغیر ہی پوری ٹیم کو پویلین واپس بھیج دیا گیا۔
خیال رہے کہ یہ پہلی سیریز تھی جس میں پاکستان نے اپنے ملک سے باہر کسی ٹیم کے خلاف وائٹ واش کامیابی حاصل کی۔
پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز 1997
گرین شرٹس نے چوتھی بار وائٹ واش کا کارنامہ کرکٹ کی کالی آندھی کے خلاف وسیم اکرم کی قیادت میں دکھایا۔
سترہ نومبر سے 9 دسمبر کے درمیان کھیلی جانے والی تین میچز کی سیریز میں پاکستانی ٹیم پورے عروج میں نظر آئی اور اس نے پہلے میچ میں ایک اننگ انیس رنز، دوسرے میں ایک اننگ 29 رنز اور تیسرے میں دس وکٹوں سے کامیابی حاصل کرکے ویسٹ انڈیز کو آﺅٹ کلاس کردیا۔
یہ سیریز اوپنر عامر سہیل کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے بھی یادگار رہی جنھوں نے چار اننگز میں 324 رنز بناکر مین آف دی سیریز کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔
پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش2002
بنگلی دیش کے خلاف پاکستان کا ٹیسٹ میچز میں کامیابی کا ریکارڈ سوفیصد رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف جنوری 2012 میں کھیلی جانے والی سیریز میں وائٹ واش فتح گرین شرٹس کے حصے میں آئی، اس بار قیادت کی ذمہ داری وقار یونس کے کندھوں پر تھی۔
قومی ٹیم نے پہلے میچ میں ایک اننگ 178 رنز اور دوسرے میں بھی ایک اننگ 169 رنز کے ساتھ کامیابی حاصل کی جس میں تیرہ وکٹیں حاصل کرکے لیگ اسپنر دنیش کنیریا مین آف دی سیریز قرار پائے۔
پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز 2002
سیکیورٹی وجوہات کی بناءپر پاکستان کی یہ ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں منتخب ہوئی جس میں گرین شرٹس کی قیادت وقار یونس نے کی۔
اکتیس جنوری سے 10 فروری تک کھیلی جانے والی اس دو میچز پر مشتمل سیریز کے پہلے میچ میں گرین شرٹس نے 170 رنز اور دوسرے میں 244 رنز سے کامیابی سمیٹی۔
عبدالرزاق نے نو وکٹوں اور 143 رنز کی آل راﺅنڈ کارکردگی کے ساتھ مین آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کیا۔
پاکستان بمقابلہ زمبابوے 2002
زمبابوے ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لیے کمزور حریف ثابت ہوا مگر حیرت انگیز طور پر اس ٹیم کے خلاف وائٹ واش کامیابی گرین شرٹس کو چھٹی سیریز میں حاصل ہوسکی۔
نو نومبر سے انیس نومبر 2002 کے درمیان دو میچز پر مشتمل اس سیریز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت وقار یونس کے سپرد تھی اور گرین شرٹس نے پہلا میچ 119 رنز اور دوسرا دس وکٹوں سے جیتا، جس میں پندرہ وکٹیں اپنے نام کرکے جادوگر اسپنر ثقلین مشتاق نے مین آف دی سیریز کے ایوارڈ پر قبضہ جمایا۔
پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش 2003
بیس اگست سے چھ ستمبر کے درمیان تین میچز کی اس سیریز میں پاکستانی ٹیم کے کپتان راشد لطیف تھے جنھیں بنگال ٹائیگرز کو شکست دینے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا درحقیقت ایک میچ میں تو انضمام الحق کی جادوئی اننگز نے گرین شرٹس کو اس بے بی ٹیم کے ہاتھوں شرمناک شکست سے بچایا۔
اس سیریز کا پہلا میچ پاکستان نے سات جبکہ دوسرا نو وکٹ سے نسبتاً آرام سے جیت لیا تاہم تیسرے میچ میں کامیابی کے حصول کے دوران پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور محض 260 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 164 رنز پر سات وکٹیں گر چکی تھیں مگر انضمام الحق نے ایک اینڈ سنبھالے رکھا اور ٹیل اینڈرز کے ساتھ مل کر آخری لمحات میں نو وکٹوں کے نقصان پر ٹیم کو کامیابی دلادی اور 138 رنز کے ساتھ ناٹ آﺅٹ رہے۔
پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش 2011
دو ہزار تین میں آٹھویں بار کسی سیریز میں وائٹ واش کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو مزید ایک بار یہ کارنامہ دوہرانے کے لیے آٹھ سال تک انتظار کرنا پڑا اور اس بار بھی بنگلہ دیش کو ہی اس شرمناک شکست کا سامنا ہوا۔
نو دسمبر سے اکیس دسمبر کے درمیان کھیلی جانے والی دو میچز کی سیریز میں مصباح الحق پاکستان کے کپتان تھے ، گرین شرٹس نے پہلا میچ ایک اننگ 184 رنز اور دوسرا سات وکٹوں سے جیت کر وائٹ واش کامیابی حاصل کی۔
جس میں تین اننگز میں 265 رنز بنانے پر یونس خان مین آف دی سیریز کا خطاب لے اڑے۔
پاکستان بمقابلہ انگلینڈ 2012
پاکستان نے سترہ جنوری سے چھ فروری کے درمیان کھیلی جانے والی تین ٹیسٹ میچز کی اس سیریز میں اس وقت کی رینکنگ میں سرفہرست ٹیم انگلینڈ کو دھول چٹائی اور ناقدین کے ان دعوﺅں کو غلط ثابت کردیا کہ گرین شرٹس کو اس سیریز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم نے پہلے میچ میں دس وکٹ، دوسرے میں 72 رنز اور تیسرے میں 71 رنز سے کامیابی حاصل کی اور ان تمام میچز میں اسپنرز کا کردار سب سے نمایاں رہا، سعید اجمل نے 24 اور عبدالرحمان نے 17 وکٹیں حاصل کیں، اس بہترین کارکردگی پر سعید اجمل کو مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔
یہ قومی ٹیم کے لیے دسواں موقع تھا کہ اس نے کسی سیریز میں وائٹ واش کامیابی حاصل کی۔
پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا 2014
اور تاحال آخری وائٹ واش کامیابی جو کہ موجودہ کمزور ترین ٹیم کو دیکھتے ہوئے سب سے بہترین بھی قرار دی جاسکتی ہے سب کے ذہنوں میں تازہ ہی ہے جس میں پاکستان نے بیس سال بعد نہ صرف پہلی بار آسٹریلیا کے خلاف کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی بلکہ ایک بار پھر اسی ٹیم کے خلاف وائٹ واش کیا جس سے اس نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔
آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں میں 468 رنز بنانے والے مڈل آرڈر بلے باز یونس خان کو مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔ انہوں نے دبئی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچری بنائی جبکہ یہاں ابو ظہبی میں وہ ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔












لائیو ٹی وی