'کوئی چیز سیاچن کے لیے تیار نہیں کرسکتی'
یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک نوجوان کیپٹن عامر رضا اپنی پوسٹنگ کے سلسلے میں سیاچن پر نہیں چڑھے تھے جہاں انہیں پہلی بار دنیا کے بلند ترین میدان جنگ کے ہر کریک اور دراڑوں میں چھپی لاتعداد مشکلات کا احساس ہوا۔
ان کا کہنا تھا"پوسٹ تک پہنچنے کے لیے چڑھائی تین گھنٹے کی تھی اور ایک لمبی قطار میں چل رہے تھے جس میں پہلا شخص رسی کے ذریعے آخری فرد سے جڑا ہوا تھا، یہ اسی ڈگری کی ڈھلان تھی اور ایک رسی پر لٹکے ہوئے تھے جب دشمن نے ہم پر فائرنگ کرنا شروع کردی، وہاں بلندی پر ہونے کے باعث آکسیجن کی سپلائی مشکل تھی اور ہمیں اپنی منزل تک رسائی کے لیے تین عناصر سے لڑنا پڑا یعنی وہاں کی زمین، آکسیجن اور دشمن"۔
اب کرنل بن جانے والے عامر رضا سیاچن نامعلوم سانچے سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں' آپ کو کوئی چیز سیاچن کے لیے تیار نہیں کرسکتی، وہاں پہنچنے پر آپ کو وہاں کے خطہ اور جغرافیے کی نامعلوم مشکلات کا احساس ہوتا ہے، ذرا تصور کریں کہ آپ کسی دراڑ میں پھسل کر بلندی سے سینکڑوں فٹ نیچے جاگریں، ایسے سانحات آپ کے تصور سے بھی زیادہ بار ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی سیاچن کے خطے کا ماسٹر نہیں بن سکتا"۔
یہ صرف عامر رضا کی ہی بات نہیں جو اپنے سامنے آنے والے حالات کے تیار نہیں تھے، وہ تمام افسران جنھیں سیاچن بھیجا جاتا ہے، کو وہاں کے سخت موسم سے مقابلے کے لیے دو سال کی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے، جیسا کہ قدیم کہاوت ہے کہ موسم سے جنگ سب سے سخت ترین جنگ ہوتی ہے، عامر رضا کہتے ہیں"یہ ایک طرح کی برین واشنگ ہوتی ہے، جنگی تربیت آپ کو سخت بناتی ہے، اس سے آپ کے اندر سخت جانی بڑھتی ہے، وہ آپ کو سیکھاتی ہے کہ کس طرح مشکلات پر قابو پایا جانا چاہئے اور یہ انسانی جسم کو ہر اس چیز کو سہنے کا عادی بناتی ہے جو آپ پر پھینکی جاتی ہے"۔
مگر کنٹرول ماحول میں حاصل کی جانے والی تربیت اس دنیا سے بالکل الگ ہے جو سیاچن میں افسران کی منتظر ہوتی ہے۔
عامر رضا کے مطابق"ہمارے پاس ایک افسر تھا جو لاہور سے تعلق رکھتا تھا، جو اپنی پوسٹ سے کیمپ واپس جارہا تھا، اچانک ایوالانچ (برفانی تودے) نے اسے کیمپ اور پوسٹ کے درمیان دبوچ لیا، وہ افسر ایک دراڑ میں جاگرا اور غائب ہوگیا"۔
اس کے علاوہ یہاں ایسے زخم بھی جسموں پر پڑتے ہیں جو کہ نظر تک نہیں آتے جیسا کہ عامر بتاتے ہیں" کارگل میں بڑی تعداد میں نفسیاتی نقصانات کے کیسز سامنے آئے، دشمن نے نیپال بم براسائے، اس نے بہت زیادہ شیلنگ یہاں تک کہ گولہ باری بھی کی، یہ وقت وقت تھا جب آپ کو چھ سے سات گھنٹے تک گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر فوجی بھی انسان ہوتے ہیں، ان پر اپنے ساتھیوں کو اپنے سامنے مرتے دیکھ کر یا اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو بے بسی سے گھورنے پر اثرات مرتب ہوئے"۔
دنیا کے بلند ترین میدان جنگ میں خدمات انجام دینے والوں کے لیے سیاچن غمگین حقائق اور بے لچک 'تھرل' کا امتزاج ہے، ایک نوجوان کیپٹن کے طور پر عامر رضا جب پہلی بار وہاں پوسٹ ہوئے تو وہ غیرشادی شدہ تھے، وہ وہاں دو افسران سمیت تیس افراد کے دستے کے ساتھ چھ ماہ تک تعینات رہے "میں ہمیشہ خود کو یہ کہتا تھا کہ ہر کوئی وہ کام نہیں کرسکتا جو میں یہاں کررہا ہوں، اس سے مجھے بے پناہ اعتماد ملتا تھا"۔
اسے کسی نوجوان کے اندر جوش و خروش بھی کہا جاسکتا ہے مگر نوجوان کیپٹن عامر رضا کو سب سے آگے مرنے کی کوئی پروا نہیں تھی اور ان کے بقول فوج شہداءکے خاندانوں کا خیال رکھتی ہے، عامر کو ہندوستان کے ساتھ عالمی سرحد اور ایل او سی سے پہلے ایل اے سی پر تعینات کیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں"مجھے یاد ہے کہ ہم پہلے بس کے ذریعے گلگت پہنچے تھے، مجھے وہاں پہنچنے میں سولہ گھنٹے لگ گئے تھے، اس راستے کے دوران میں مناظر کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے میں انہیں آخری بار دیکھ رہا ہوں"۔
جب وہ بٹالین ہیڈکوارٹرز پہنچ گئے تو انہیں بتایا گیا کہ انہیں اپنی پوسٹ تک پہنچنے میں مزید پانچ دن لگیں گے جس کے دوران انہیں بیس پر رکنا بھی ہوگا۔
اس بیس کو راستے میں اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ وہ دشمن کے حملوں سے بچ سکے مگر پوسٹ تک چڑحائی کے دوران تمام کام پیدل پورٹرز کی مدد کے بغیر کرنا پڑتا ہے، ایک بار جب پوسٹ پہنچ جاتے ہیں تو سیاچن کی مشکل زندگی معمول بن جاتی ہے"جب کوئی شدید برفانی طوفان آتا تو فوجی برف کے گالوں کو پکڑ کر انہیں جیری کینز میں ذخیرہ کرلیتے تھے ، کیونکہ اکثر آپ ایسی صورتحال میں پھنس جاتے تھے جب آپ دشمن کی کسی پکٹ کو بیت الخلاءکے جھروکے سے دیکھتے ہوئے وہاں ہی بیٹھے رہنے پر مجبور ہوجاتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے کہ وہ فائرنگ شروع نہ کردے"۔
عامر رضا بتاتے ہیں کہ وہاں زندگی کی صورتحال انتہائی مشکل تھی، اکثر کھانا مناسب طریقے سے پکتا نہیں تھا کیونکہ مٹی کے تیل کے چولہے کو حرارت ہی نہیں ملتی تھی، متعدد خوراک سے محروم رہتے تھے، جبکہ وہاں پانی کی مقدار بھی محدود تھی، اسی طرح دشمن کے حملے کا ڈر اکثر لاحق رہتا تھا۔
وہ مزید بتاتے ہیں"نلکے سے پانی کو بہتے دیکھنے کی خواہش آنکھوں کی سوجن کا باعث بن جاتی تھی، جب بھی میں کیمپ واپس آتا تو جو چیز سب سے پہلے کرتا وہ نلکے کو کھولنا ہوتا تھا، پوسٹ میں ہمیں پاﺅڈر برف کو پانی میں ملانا پڑتا تھا کیونکہ اپنی اصل شکل میں برف کے گالے جو ہم ذخیرہ کرتے تھے، پینے کے لائق نہیں ہوتے"۔
مگر سیاچن میں خدمات سرانجام دینے والے افسران کے لیے ہر طرح کے ڈر کو خود سے دور رکھنا ضروری ہوتا ہے، عامر رضا وضاحت کرتے ہیں کہ یہ نچلی صفوں کے فوجیوں کے جوش اور مورال کو بلند رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے"اعتماد کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ قیادت کرنے والے افسران کیا مثال قائم کرتے ہیں، ایک افسر اور اس کے ماتحتوں کے درمیان تعلق کا انحصار اس پر ہوتا ہے، یعنی ایسے مقام پر جہاں ہر چیز اپنی بقا کی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے، لوگ اسی وقت آپ کے لیے لڑتے ہیں جب آپ ان کے سامنے درست مثال بن سکیں"۔
اس پر انحصار ہے یا نہیں مگر اپنے چہرے پر دلیری کا نقاب لگانے سے سرحدوں کے دفاع پر مامور افراد کی شخصیت ضرور تبدیل ہوجاتی ہے"کئی بار خاص طور پر جنگ کے وقت ہم ایک دوسرے کو اپنی ذات سے الگ کردیتے تھے، کسی پیارے کی موت پر آنسو کا ایک یا دو قطرے بہانا بھی مشکل ہوتا تھا، کوئی اپنے احساسات کو تو سمجھ سکتا ہے مگر اسے تحمل اور حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے"۔
نوٹ : نام کو تبدیل کردیا گیا تھا کہ متعلقہ فرد کی شناخت اور پرائیویسی کو تحفظ دیا جاسکے۔
تبصرے (2) بند ہیں