• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستان کے وہ نوادرات جو عوامی نظروں سے گم

شائع October 31, 2014
قرآن مجید کا انتہائی نایاب اور خوبصورت نسخہ
قرآن مجید کا انتہائی نایاب اور خوبصورت نسخہ

کراچی : جب آپ میوزیم یا تاریخی نوادرات کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلا خیال آپ کے ذہن میں ہوسکتا ہے شاہی پروہت کا آئے، ایک مرد کا مجسمہ جس کا بازو اور ناک ٹوٹے ہوئے تھے اور اسے 1927 میں موئن جودڑو سے نکالا گیا تھا، تاہم کراچی کے قومی میوزیم جانے سے آپ کو دیگر قیمتی نوادرات کی دولت کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملے گا جن سے متعدد افراد واقف نہیں۔

میوزیم کی متعدد گیلریز کو مختلف ادوار کے تاریخی مقامات اور نوادارات کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔

شاہی پروہت موئن جودڑو گیلری کا سب سے مرکزی نوادر ہے، اور درحقیقت یہ اصلی نہیں بلکہ اس کی مکمل نقل ہے جسے گیلری میں رکھنا زیادہ خطرناک بھی جہاں تحفظ کے نام پر صرف شیشے کے شوکیس کے سوا کچھ دستیاب نہیں۔

تاہم میوزیم کے سپرٹینڈنٹ محمد شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ متعدد گیلریز میں موجود دیگر نوادرات کی بڑی تعداد اصلی ہے۔

موئن جودڑو سے ملنے والی ایک لکڑی کی کھلونا بیل گاڑی
موئن جودڑو سے ملنے والی ایک لکڑی کی کھلونا بیل گاڑی

انہوں نے مختلف چیزوں کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا"موئن جودڑو اپنے کھلی سڑکوں، دومنزلہ مقامات، نکاسی آب کے مناسب نظام اور ہر گھر میں تازہ پانی کے کنویں جیسے بہترین شہری منصوبہ بندی کا حامل شہر تھا"۔

پانسے
پانسے

یہاں ایک خاتون کا مجسمہ بھی موجود ہے جس کے کپڑے اور زیورات اس دور کے طرز زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

ایک اور شوکیس میں متعدد جانوروں کے مٹی سے بنے چھوٹے ماڈلز رکھے ہیں جن میں شیر، بیل، بھیڑیں، گینڈے اور دیگر تو ہیں مگر گھوڑا نہیں، اس بارے میں محمد شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھوڑے اس سرزمین میں کئی صدیوں بعد محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے۔

وادی سندھ کی تہذیب کی مہریں
وادی سندھ کی تہذیب کی مہریں

موجودڑو کے رہائشی بورڈ گیمز کھیلن کے شوقین تھے، جس کی مثال سنگی شطرنج بورڈ سے ملتی ہے جبکہ متعدد مٹی اور پانسوں کے کھیل بھی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ تھے۔

یہاں بچوں کے کھلونے بھی رکھے گئے ہیں جن میں لٹو کا اوپری حصہ بھی شامل ہے۔

محمد بخاری کے مطابق"لوگ قیاس کرتے ہیں کہ کیوب ڈائس یورپ کی تخلیق کردہ ہے تاہم اگر وہ حقیقت جاننا چاہئے تو انہیں میوزیم آنا چاہئے"۔

یہاں متعدد مہریں بھی موجود ہیں تاہم ان کے اوپر موجود تصویروں کی وضاحت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے اور محمد بخاری کا کہنا ہے کہ ہم مصری اور عراقی تمدن کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں کیونکہ ان کی علامات اور رسم الخط نوادرات پر موجود ہے وغیرہ وغیرہ، جن کا ماہرین نے ترجمہ بھی کیا ہے، تاہم مگر ہم اب تک جان نہیں سکے کہ ہمارے ملک میں دریافت ہونے والے نوادرات کی تصاویر یا علامات سے کیا مراد ہے"۔

شاہی پروہت مجسمے کی دریافت کے وقت کا منظر
شاہی پروہت مجسمے کی دریافت کے وقت کا منظر

گندھارا تہذیب کی گیلری میں تخت بائی کے سرائے کا ایک خوبصورت ماڈل رکھا ہے، اسی طرح بدھا کے نودار کی نقل لکڑی پر تیار کی گئی ہے جس پر اس کی زندگی کے متعدد مراحل کو تحریر کیا گیا ہے۔

یہاں ایک گیلری سکوں کے لیے مختص ہے، جہاں عرب سکے رکھے گئے ہیں جن مین سب سے قدیم 74 ہجری(683 عیسوی) کا ہے جسے مسلمانوں نے بغداد میں ڈھالا تھا۔

تحریک آزادی کی گیلری میں وہ میز رکھی ہے جس پر پاکستانی کی پہلی کابینہ کی ملاقات ہوئی تھی۔

اسلامی آرٹ کی گیلری میں محمد بن قاسم کے عہد کے شہر منصورہ میں کانسی سے بنا عظیم الجثہ دروازہ کھٹکھٹانے والے موکل رکھے ہیں جن میں سے ہر ایک کا وزن 54 کلوگرام ہے۔

میوزیم کی سب سے جدید اور خوبصورت گیلری قرآن گیلری ہے جس میں انتہائی قدیم اور انتہائی قیمت مقدس نسخے رکھے ہوئے ہیں، محمد بخاری کا کہنا ہے کہ ان نسخوں کے تحفظ کے لیے حکومت پاکستان نے انہیں 1984 میں جرمنی بھی بھیجا تھا۔

یہاں موجود قیمتی قرآنی نسخوں میں شامل سب سے نایاب نسخہ عراقی خطاط احمد ابن السہروردی (1307-1308) کا ہے، میوزیم سپرٹینڈنٹ کے مطابق" عراقی خطاط نے اس طرح کے سولہ نسخے تیار کیے گئے تھے جن میں سے چودہ کہیں گم ہوگئے اور اب صرف دو ہی باقی ہیں جن میں سے ایک ہمارے پاس ہے جبکہ دوسرا نسخہ ترکی کے آباصوفہ میوزیم میں رکھا ہے"۔

بدقسمتی سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد نوادرات ہمارے پاس نہیں، شاہی پروہت ہی صرف یہاں سے دریافت ہونے سب سے قیمتی نوادر نہیں، بلکہ ایک رقاصہ کا کانسی کا مجسمہ بھی موئن جودڑو سے دریافت ہوا تھا تاہم تقسیم ہند کے وقت اسے ہندوستان کے حوالے کردیا گیا، پاکستانی حکومت کی جانب سے اس کی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم کوئی کامیابی نہ مل سکی۔

محمد بخاری بتاتے ہیں"آپ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کراچی کی عمارت درحقیقت وکٹوریہ البرٹ میوزیم تھا تاہم برطانیہ تقسیم کے وقت وہاں سے سب قیمتی سامان لے گیا"۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کے پاس اپنے نوادرات ہیں تاہم محمد بخاری کا کہنا ہے کہ جب تک وہ اس کا خیال رکھ رہے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں"حکومت کسی سے نوادرات واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتی جب تک وہ اس کا اچھا دیکھ بھال رکھتے ہیں، تاہم ہم انہیں وہ بیرون ملک لے جانے کی اجازت نہیں دیں گے"۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024