• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بک ریویو: اپنی دانست میں

شائع November 4, 2014 اپ ڈیٹ November 6, 2014
— سرورق بشکریہ سنگِ میل پبلیکیشنز
— سرورق بشکریہ سنگِ میل پبلیکیشنز

"اپنی دانست میں" اردو کے صف اول کے ناول نگار، افسانہ نگار اور کالم نگار انتظارحسین کے خطبات صدارت، یادگاری لکچرز اور کلیدی خطبات کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے اردو ادب کے رجحانات، اردو ادب کی روایات اور اس پر مغربی ادب اور ادیبوں کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔

کہیں وہ بیسویں صدی میں چلنے والی ادبی تحریکوں ترقی پسند تحریک، جدیدیت کی تحریک، کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں ان تحریکوں کے پس منظر میں مختلف ادیبوں اورشاعروں کی نگارشات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ 54 مضامین کےاس مجموعے میں موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔

پاکستان میں ادب میں قومی شناخت کے مسئلے کو وہ کالاباغ ڈیم کے مسئلے سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ہم ابھی تک یہ نہیں طے کرپائے ہیں کہ ہماری قومی تاریخ کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے۔ اگر تاریخ زمین کے حوالے سے بنتی ہے تو اس کا سلسلہ موئن جو دڑو اور ہڑپہ سے شروع ہوتا ہے، لیکن دوسرا گروہ تحریک پاکستان کے حوالے سے بضد ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی جگہ ایک علیحدہ قوم تھے اوران کی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوتی ہے۔

یہ سوال نہ صرف ادب میں بلکہ سیاسی سطح پر بھی اٹھائے گئے۔ ایک تنازعہ شروع ہوا اور تہذیب کا مسئلہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ یہ بحث اتنی بڑھی کہ مذہبی تہور اور موسمی میلے تک اس میں زیر بحث آگئے اور اب حالت یہ ہے کہ یہ بحث ادب کے کالا باغ ڈیم کے منصوبہ کی مانند ہے جس پر آج تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

آخر میں انتظار حسین کہتے ہیں سچ پوچھو تو کالا باغ ڈیم ہی ہماری قومی شناخت ہے یعنی اتفاق رائے نہ ہونے میں ہی ہماری قومی شناخت مضمر ہے۔

ہند مسلم تہذیب میں روشن خیالی کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے وہ امیر خسرو، مولانا ظفرعلی خاں، محسن کاکوروی اور اقبال کی نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سب کی شاعری میں تعصب، تنگ نظری اورعدم رواداری کے خلاف ایک تحریک مزاحمت نظر آتی ہے۔ بھگتی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کبیر کے بارے میں لکھتے ہیں "عجیب شخصیت تھی مسلمانوں نے اسے مسلمان جانا اور اسی حساب سے اس کی تدفین کرنی چاہی اور ہندوؤں نے اسے ہندو گردانا"۔

"ہند مسلم تہذیب اورموسیقی" میں انتظار حسین لکھتے ہیں کہ اسی دور میں جونپور کے فرمانروا سلطان حسین شرقی نے سترہ راگ ایجاد کیے اور کشمیر کےسلطان زین العابدین نے مختلف سنسکرت کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کروایا۔ نظام الدین اولیاء کے مرید امیر خسرواگرچہ ترک زادہ تھے اور فارسی میں شاعری کرتے تھے لیکن دوتہذیبوں کے دھارے ان کی ذات میں اس خوبصورتی سے گھل مل گئے کہ ایک نئی زبان ابھری، فارسی اور ہندوی دونوں کا رنگ لیے ہوئے گنگا جمنی تہذیب ظہور پذیر ہوئی۔

لیکن جب پاکستان بنا توگنگا الٹی بہنے لگی، ایک اور اصطلاح سننے میں آئی جس سے امیرخسرو واقف نہیں تھے۔" ثقافتی حملے" کی اصطلاح۔ انتظارحسین کہتے ہیں "یہ سب تہذیبی خوفزدگی کی علامتیں ہیں۔ اب ہم تہذیبی عمل کو بھی اسلامی اور غیر اسلامی ترازو کے پلڑے میں تولنے لگے ہیں" اورآخر میں لکھتے ہیں " ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب کوئی قوم تہذیبی خوف میں مبتلا ہوجائے۔ یہ اس کے زوال کے آثار ہوتے ہیں"۔ اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ انتظارحسین اپنے صدیوں پرانے ماضی سے رشتہ توڑتے نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کہانی لکھنے کی تربیت انہوں نے اپنی نانی سے حاصل کی جو انہیں پرانی قصے کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ لوک کہانیاں، حکایتیں اورداستانیں کسی علاقے میں محصور ہوکر نہیں رہ جاتیں بلکہ قریہ قریہ سے گذر کر، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتی دوسری تہذیبوں میں رچ بس جاتی ہیں، یہ عمل دوطرفہ ہوتا ہے۔

آج پاکستان میں ایک طبقہ اس بات پر فکرمند ہےکہ اس" ثقافتی یلغار" کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں "کسی تہذیبی عمل میں پہیہ الٹا تو نہیں گھمایا جا سکتا، پھر کیا کیا جائے۔ وہی پرانا نسخہ جبروتشدد والا جس نے آج کے مسلمان معاشرے میں ایک نئی مخلوق کو جنم دیا ہے جس نے دہشت گرد کا لقب پاکر اپنا لوہا منوایا ہے۔ لڑکیوں کے اسکول جلانے سے، حجاموں کے استرے پر پابندی لگانے سے، ٹی وی سیٹوں، فلمی گانوں کے کیسیٹوں اور ویڈیوز کو نذرآتش کرنے سے کیا تہذیبی تطہیر ہوجائے گی؟ ہاں تہذیبی خودکشی کا یہ آسان راستہ ضرور ہے اوراگر ان جہادیوں کی ایجاد کردہ خودکشی کے نسخہ میں ان کے ہمدردوں اور حامیوں کواسلام کی فلاح نظر آتی ہے تو یہ الگ بات ہے"۔

انتظار حسین کی یہ کتاب فکر انگیز ہے۔ کسی مضمون میں وہ ادب میں جمود کے نظریہ کے حامل افراد کو زہرہ نگاہ اور کشورناہید کی شاعری پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں تو کہیں ادب میں ترجمے کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ کہیں وہ فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، منٹو اور گلزار کی تخلیقات کو زیربحث لاتے ہیں تو کہیں جاتک کتھاؤں کی اہممیت کو بیان کرتے ہیں۔

ایک مختصرسے مضمون میں ان تمام موضوعات کا احاطہ کرنا مشکل ہے جن پر انتظارحسین نے اپنے خیالات کا اظہارکیا ہے لیکن میراخیال ہے کہ یہ ایک ایسی پرمغزکتاب ہے جس کا ہر مضمون اپنی جگہ اہم ہے اور ادب کے طالب علموں کے لیے تو ایک ایسا خزانہ ہے جسے باربار پڑھا جانا چاہیے۔


کتاب کا نام: اپنی دانست میں

مصنف: انتظارحسین

صفحات: 240

قیمت: 795 روپے

اشاعت: 2014ء

پبلشر: سنگ میل پبلکیشنز

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024