پاکستانی سیاست: خیالی جاگیردار اور حقیقی اشرافیہ
حقیقت کو ہمیشہ ہی ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے، غرور کی حد تک ذاتی قدر اور اہمیت کے عہد میں معاشرے حد سے زیادہ شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں، اور جب اس پر سوالات اٹحائے جاتے ہیں تو یہ معاشرے یا تو اس کی تردید کرتے ہیں یا نئی کہانی کا تانا بانا بننے لگتے ہیں۔
گزشتہ دو دو برسوں کے دوران ہمارے عوام ایک ایسے پراسیس سے گزارے ہیں جس میں ابتدائی طور پر پاکستان کی تلخ حقاق سے انکار کیا گیا اور پھر پرجوش انداز میں غلط کہانیوں کو بیان کیا گیا، ان کہانیوں میں ابتدا میں نظام کو ذمہ دار قرار دیا گیا، جس کے بعد یہ ذمہ داری حکومت اور اب ہر چیز کے لیے ہر ایک کے اوپر ڈال دی گئی ہے۔
بہت زیادہ وقت ان غلط کہانیوں پر تنقید کرتے ہوئے گزارا گیا جنھیں متعدد افراد حقیقت مانتے ہیں، اور ان بنیادی حقائق کو نظرانداز کیا جارہا ہے جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔
آغاز میں، مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں سیاست ووٹرز کے فیصلے کے لیے نہیں۔
پاکستان میں اشرافیہ کو ہی اہمیت حاصل ہے اور یہاں کبھی بھی ووٹرز کو کسی چیز کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ملا، ووٹرز کسی بھی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں کبھی بھی اشرافیہ کے ساتھ مساوی حصہ نہیں پاسکے۔
طرز حکمرانی کی تشکیل میں یہ معاملہ اہمیت نہیں رکھتا کہ ملک میں آمریت ہے یا مطلق العنان جمہوریت، سیاسی صورتحال اشرافیہ کے ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ ہے۔
چنانچہ اقتدار میں کوئی بھی ہو اس کا مقصد اپنے معاشی اور سماجی مفادات کا تحفظ اور فروغ دینا ہوتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف اقدامات اور ذاتی پروپگینڈے کا سہارا لیتا ہے، اس سے ہماری حکومتی کی تشکیل کی وضاحت ہوتی ہے۔
ملکی اشرافیہ اب جاگیراروں پر مشتمل نہیں، اب ہمارے ملک میں اشرافیہ یا اعلیٰ طبقہ دو اقسام کا ہے، زمینیں اور سرمایہ، بیشتر جاگیردار اب سرمایہ دارانہ اشرافیہ کا حصہ بن چکے ہیں۔
اور اس ارتاق کے دوران لفظ فیوڈل یا جاگیردار کافی گندہ ہوا۔
اس کی وضاحت کے لیے ارتقا پذیر معاشرے کے ایک پیچیدہ تعامل کا حصہ بننا پڑے گا، اس میں بے ڈھنگا پن اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب اشرافیہ خود کو اپنے کم اہم ساتھیوں کے مقابلے میں منفرد یا مختلف دکھانے کی خواہش کرتے ہیں۔
کسی مشترکہ دشمن سے نفرت سے زیادہ کوئی چیز لوںگوں کو متحد اور اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی ہے، اور اس معاملے میں خیالی یا اساطیری شیطان کا کردار جاگیرداروں کو دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تقاریر کے لیے مقبول موضوع ہے یہاں تک کہ اب جبکہ جاگیرداری کا لگ بھگ خاتمہ ہوچکا ہے، پھر یہ ہمیشہ سے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتا ہے، جبکہ دیگر جیسے سماجی مساوات اور آمدنیوں میں خلاءکو کم کرنے جیسے عناصر کو فراموش کردیا جاتا ہے۔
اشرافیہ لوگوں کے کسی دوسرے گروپ کی طرح کو ایک سنگی یا ایک جیسے نہیں، درحقیقت بیشتر مواقعوں پر ان کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔
حکومت ہمیشہ ہی اشرافیہ کے ایسے گروپ کی عکاس ہوتی ہے جو بالادست ہوتا ہے، مثال کے طور پر مشرف عہد میں جب اسٹاک مارکیٹ کے بڑوں نے مصنوعی مستحکم معیشت اور فرضی ترقی سے پیسہ کمایا۔
اور جب ززرداری کا دور آیا تو متعدد اشرافیہ نے اپنے کاروبار بچانے کے لیے ملک چھوڑ دیا جبکہ دیگر نے اپنے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ کیا، اور اب نواز شریف کا دور ہے اور وہ اشرافیہ جو زرداری کے عہد میں بھاگ گئی اب پھر اٹھنے لگی ہے۔
وہ افراد جو مشرف عہد میں پیسہ کمانے کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تھے اب 'فیاض آمریت' کی پشت پناہی کررہے ہیں جیسے عمران خان اور طاہر القادری، ان دونوں کو یہ طبقہ اپنے مفادات کے لیے کئی بار استعمال کرچکا ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کے تین گروپس موجود ہیں جو ہمارے طرز حکمرانی کی تشکیل میں بنیادی طاقتوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ سیاستدان اور آمر ہوسکتا ہے کہ آپریشن کا چہرہ ہوں مگر اس کا دماغ طبقہ اشرافیہ ہی ہوتا ہے۔
اس تناظر میں یہ چیز دیکھنا کافی دل شکنی کا باعث بنتا ہے کہ عام آدمی بس یہ تصور ہی کرکے رہ جاتا ہے کہ اس کی رائے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ دیکھنا دل ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے کہ لوگوں کے اندر یہ سوچ رائج پاچکی ہے کہ سیاستدانوں کو نکال باہر کرنے یا طرز حکمرانی کی قسم میں تبدیلی سے ان کی زندگیوں اور ان کے بچوں کی زندگیوں پر کسی بھی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں کی ان گنت تعداد درحقیقت کسی کام کی نہیں نظر آتی جب کوئی پاکستانی قوم کے 99 فیصد کو نچلی قطاروں میں دیکھتا ہے۔
درحقیقت بیشتر افراد یہ پراکسی وار اشرافیہ کے کسی ایک طبقے کی جانب سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ اس سے واقف بھی نہیں ہوتے۔
یہ اس وقت مزید دلچسپ ہوجاتا ہے جب اعلیٰ طبقے سے رکھنے والے فرد اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خاتمے کی بات کرتا ہے، اور یہ دیکھنا باعث شرم ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے گروپس کے افراد پرجوش انداز میں سیاستدانوں کا دفاع کررہے ہوتے ہیں جو کہ خود معاشی اشرافیہ کے گروپ کی جانب سے اقتصادی وسائل پر قبضے کی جنگ کا حصة ہوتے ہیں، تاکہ وہ عوامی پیسے کا رخ اپنی جانب کرسکیں۔
مگر سب سے ظالمانہ مذاق کرپشن کے گرد گھومتا ہے۔
یہ خیال کہ کرپشن نظام کو لاحق حقیقی مسئلہ ہے درحقیقت ایک کارٹونسٹ تصور ہے جو ان ہی افراد کا پھیلایا ہوا ہے جو اپنی ناکامیوں کی وضاحت کی تلاش میں ہوتے ہیں، یہ آمدنیوں میں فرق اور سماجی انصاف کی عدم موجودگی یہی حقیقی وجہ ہے۔
یہی پاکستان اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی حقیقت ہے، تلخ حقائق کا تعلق جمہوریت یا آمریت سے نہیں، یہ اشرافیہ کے ایک سے دوسرے طبقے کا طاقت کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں۔
پر بار پنجاب کے فیصلہ کن کردار کی وجہ یہی ہے کہ طاقت کی اکثریت کا بیس وہی ہے، تو اس وقت جب لوگوں کی جانب سے اٹھنے اور حکومتی پالیسیوں کے احتجاج کو سراہے جانے کی ضرورت ہے اس کے یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے طویل المدتی بنیاد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہ تو بس لوگوں کے گروپ کی تبدیلی سے زیادہ کچھ نہیں جو اقتدار میں آکر اپنے لیے پیسہ بنانے لگیں گے۔
یہ جدوجہد یکساں آمدنی اور سماجی انصاف کے لیے ہونا چاہئے۔
کرپشن اور دیگر معروف برائیاں موجودہ عہد سے مطابقت نہیں رکھتیں اور نہ ہی یہ تصور کہ جایگردار معیشت کو اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہیں جو کہ آزاد مارکیٹ کے اس دور میں ممکن ہی نہیں۔
لکھاری اس وقت جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں