• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسز + رونا دھونا= ریٹنگ

شائع November 4, 2014 اپ ڈیٹ November 12, 2016
خواتین ایک مکمل باشعور انسان سے تبدیل ہوکر ٹو ڈی مخلوق میں تبدیل ہوگئی جو رونے دھونے اور سازشیں کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔
خواتین ایک مکمل باشعور انسان سے تبدیل ہوکر ٹو ڈی مخلوق میں تبدیل ہوگئی جو رونے دھونے اور سازشیں کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔

کئی بار ٹی وی دیکھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے بنانے والے خواتین کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام ہیں۔

یا شایدپروڈیوسرز ایک خاص نکتے پر خواتین کو نہ سمجھنے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے دائرہ نگاہ کو محدود رکھتے ہیں۔

اگر آپ ٹی وی کے شوقین ہیں تو آپ نے اس بات کو ضرور نوٹس کیا ہوگا کہ یہ لفظ "روایتی خاتون" بھی رونے دھونے کا اتنا شوقین نہیں جتنا ہم نشریات میں دیکھتے ہیں۔

زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں جب الفا براﺅو چارلی، میں ایک لڑکی کے کردار کو ذہانت بھرے انداز میں پیش کیا گیا تھا، جس میں حقیقی زندگی کی مضبوطی، کمزوری، مسائل، ردعمل اور جذبات کو دکھایا گیا تھا۔

اسی طرح اس حوالے سے کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی گئی تھی۔

رائٹرز جیسے حسینہ معین نے چالیس برس سے زائد عرصہ خواتین کرداروں کو گھریلو خواتین، کاروباری، طالبعلم یا صرف منہ پھٹ یا گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے کرداروں کو ارتقا دیتے ہوئے گزار دیا، چالیس برس کی یہ محنت محض چند سال میں ٹیلیویژن میں ہندوستانی اثرات آنے سے ضائع ہوگئی، خواتین ایک مکمل باشعور انسان سے تبدیل ہوکر ٹو ڈی مخلوق میں تبدیل ہوگئی جو رونے دھونے اور سازشیں کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔

یہ بات بھی آپ کے مشاہدے میں آئی ہوگی کہ ہم بہت تیزی سے حقیقی صلاحیت رکھنے والی خواتین اداکاراﺅں سے محروم ہوتے ہیں جو خوبصورتی اور ذہانت کا امتزاج تھیں جس کی بدولت وہ اپنے کردار کے تقاضے پورے کرپاتی تھیں جیسے شہناز شیخ یا مرینہ خان۔

موجودہ عہد کی اداکارائیں ہوسکتا ہے کہ پرکشش ہوں مگر وہ کسی ڈوبنے والے کے لیے تنکے کا سہارا نہیں بن سکتیں، ناقص کاسٹنگ کا انتخاب ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔

خواتین پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور ایڈیٹرز جو اپنے مرد ہم منصبوں کے ہاتھوں ہونے والے اس نقصان کی تلافی کرسکتی تھیں، کی تعداد ناکافی ہے، یہاں تک کہ خواتین کی اکثریت جو ایک خاص فصل سے ابھر کرسامنے آئی ہے، یعنی اردو ڈائجسٹوں سے، وہ بھی واضح طور پر ان تحریری معیار کی رسی میں جکڑی جاچکی ہیں۔

یہ پول جو ہم نے تیار کیا ہے پہلے ہی بہت چھوٹا ہے اور وقت کے ساتھ اس میں متعدد مردانہ مقاصد کو شامل کردیا گیا ہے اور اب وہ کوئی اوریجنل پراڈکٹ نہیں رہا۔

اس کی ایک بہترین مثال حسینہ معین کا ڈرامہ 'میری بہن مایا' ہے، جس کو اتنا فلٹر کیا گیا ہے کہ ایسا لگنے لگا جیسے اسے کسی اناڑی نے تحریر کیا ہے۔

اس تاثر کی وجہ یہ تھی کہ اس کے بیشتر مناظر میں کوئی نہ کوئی روتا نظر آتا اور بوڑھی خواتین دوسرے افراد کی زندگی کو تباہ کرنے کے طریقے ایجاد کرتی نظر آئیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ جب بھی آپ دو خواتین کو اسکرین پر دیکھتے ہیں تو آپ ان کے درمیان ناقابل یقین تنازعے کا خدشہ محسوس کرنے لگتے ہیں، عام مروج اصولوں سے ہٹ کر بنائے جانے والے ایسے کمزور ڈرامے(جیسے پیارے افضل) کافی سراہے بھی جاتے ہیں۔

بیشتر مرد پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز خواتین کو محدود روشنی سے دیکھتے ہیں جس کی وج ہسے وہ ان کے کرداروں میں توسیع کی ضرورت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

ان کے ذہنوں میں رونا دھونا برابر ریٹنگ کا فارمولہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اسی کو دوہراتے رہتے ہیں۔

اوپر دیا گیا مسئلہ ایچ آر ایشو کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے یعنی لوگوں کو تبدیل کردیا جائے اور ہوسکتا ہے آپ اس راستے سے مسئلے پر قابو پالیں، مگر مشکل یہ ہے کہ اس پر عمل بہت مشکل ہے، درحقیقت یہ کسی اور کے مقابلے میں بہت سادہ، بلکہ بہت بڑھا مسئلہ ہے اور یہاں تک کہ اسے سمجھنے والے مرد بھی اسے بیان کرنے سے گھبراتے ہیں: وہ یہ کہ ٹی وی انڈسٹری میں خواتین کے لیے کام کرنے کے حوالے سے دوستانہ ماحول موجود نہیں۔

کچھ مثالوں کو نکال خواتین اس صنعت سے صارف دکاندار کا تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ مسلسل مردوں سے نمٹنے کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخر کیوں مواد کو اتنا زیادہ فلٹر کیا جاتا ہے، میرے لیے ایک مر ہونے کے باوجود ممکن نہیں کہ اس تجربے کو مکمل طور پر بیان کرسکوں، مگر یہ احتیاط سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں ایک خاتون ہوتا تو میں یہاں قدم رکھنے سے پہلے کئی بار سوچنا۔

اس تعصب کا سب سے بدترین شکار عالمی سطح پر ملکی چہرہ ہوتا ہے، اگر ہم خواتین کردار کی گہرائی ماپنے کے ہی قابل نہیں ، تو ہمیں خود کو ایسی قوم کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں جو حقوق نسواں اور ان کی ترقی میں آسانیاں فراہم کرنے کی خواہش مند نہیں۔

یہ رجحان ان حقائق کی روشنی کے باوجود برقرار ہے کہ ہماری عالمی سطح پر حالیہ کامیابیاں تمام تر خواتین کی ہی بدولت حاصل ہوئی ہیں، ملالہ کے نوبل انعام سے لے کر شرمین عبید چنائے کے ایمی اور آسکر ایوارڈ تک، یا برقعہ ایوینجر کا پیاباڈی جیتنا اور ایمی میں نامزد ہونا۔

تاہم قریب النظری کی حیرت انگیز مشق اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب انڈسٹری کی جانب سے مزید ڈاکو مینٹریز اور اینیمیشنز سے ہی ہاتھ اٹھالیے گئے۔

ہمارے اندر مسائل کے حوالے سے معذرت خواہانہ رجحان قومی سطح پر برھ رہا ہے اور اسے ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں چاہے یہ حقیقت نہ بھی ہو، یہ بات اس چیز کو اجاگر کرتی ہے یہ "ہماری" غلطی نہیں، درحقیقت دیکھنے والے اس کے بلاارادہ ہدف بن گئے ہیں۔

ہم اس نقصان کی تلافی کا آغاز ان افراد سے فاصلہ بڑھا کر، کرسکتے ہیں جو اس فطرت کے حامل ہیں، کیونکہ یہ جتنے وقت تک ٹرینڈ میں رہے گا اس پر قابو پانا اتنا ہی مشکل ہوجائے گا۔

انگریزی میں پڑھیں۔

عدی عبدالرب

عدی عبدالرب پی باڈی ایوارڈ یافتہ ٹی وی سیریز لکھ چکے ہیں جو ایمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوچکی ہے۔ وہ انٹرٹینمنٹ، ٹیکنالوجی، اور تعلیمی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں abdurab@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024