بلاول: جذبہ نیا، پالیسی پرانی؟
بلاول بھٹو زرادری نے بہت بڑے جلسے میں اثرانگیز تقریر سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کردیا ہے۔ والدہ کی شہادت نے انہیں وقت سے پہلے سیاست کے میدان میں دھکیل دیا۔ محترمہ اور بلاول، دونوں کے سیاسی آغاز میں بعض مماثلتیں بھی ہیں تو بعض مختلف چیزیں بھی۔ دونوں کو اپنا سیاسی ورثہ نبھانا پڑا۔ ایک کے دور میں ضیاء الحق کا مارشل لا تھا، بلاول کا دور جمہوری دور ہے۔ ہاں ملک اور خود اس کی جان کو دہشتگردوں سے خطرہ ہے۔
بلاول کے جلسے اور ان کی تقریر نے عام آدمی کو یقیننا متاثرکیا۔ انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک روانی کے ساتھ اردو میں تقریر کی اور ایک درجن سے زائد اشوز پر بات کی۔ ان کا موقف کئی معاملات پر معصومانہ مگر حیققت پسندانہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پارٹی اس کی عملیت پر مختلف انداز اور سوچ رکھتی ہے۔ لوگ بلاول کے لب و لہجے، انداز گفتگو اور الفاظ میں بینظیر کو ہی ڈھونڈ رہے تھے۔
گزشتہ دوماہ سے ملک میں جو موضوعات زیر بحث تھے، بلاول بھٹو زرداری نے ان سے ہٹ کر بات کی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں یا رہنماؤں پر تنقید اپنی جگہ پر لیکن لب و لہجہ سیاسی اور پارلیمانی تھا۔ کسی کے خلاف بھی کوئی گری ہوئی زبان استعمال نہیں کی۔ جس سے عام آدمی یہ امید وابستہ کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ایک سنجیدہ لیڈر مل گیا۔
پارٹی کی قربانیوں کا ذکر تو کرنا ہی تھا۔ نئی بات یہ تھی کہ انہوں پارٹی کے تین نوجوان رہنماؤں ایاز سموں، ناصر بلوچ اور ادریس طوطی کا ذکر کیا جنہیں الذولفقار کا رکن قراردینے کے بعد فوجی عدالت کے فیصلے کے تحت سزائے موت دے دی گئی تھی۔ پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے اس گروپ کے کارکنوں کو بہت کم مواقع پر اپنا کہا ہے۔
پڑھیے: جلسے میں بلاول کو 7 مسائل پر بات کرنی چاہیے
انہوں نے دہشگردوں کے خلاف، آسیہ بی بی کی سزا، سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل کے حوالے سے بلاشبہ بولڈ موقف اختیارکیا۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما نے 73 کے آئین کوہی بھٹوازم قرار دیا۔ یہ بھٹوازم کی نئی تشریح ہے۔ اور وہ اسی آئین کی چھتری کے نیچے تمام سیاسی قوتوں کو جمع کرنا چاہ رہے ہیں۔ آج کے تبدیل شدہ حالات اور نئے حقائق میں یہ آئین آج کس حد تک موزوں ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ خود ان کی پارٹی گزشتہ دور میں اس آئین میں کئی ایک ترامیم کرچکی ہے جبکہ اتنی ہی ترامیم مزید کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ آئین ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی ضروریات کو پورا کر سکے۔
یہ بات سوالیہ ہے کہ ملک میں صرف دو سیاسی قوتیں ہیں۔ ایک بھٹوازم اور دوسری آمریت کے پجاری یا بھٹوازم کے مخالف۔ گزشتہ تیس سال کے عرصے میں دنیا میں سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی میں تبدیل ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کے اثرات لامحالہ طور پر پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ جہاں نئے طبقات پیدا ہوئے ہیں، ان کا رول تبدیل ہوا ہے، وہاں ان طبقات کے آپس کے تعلقات بھی بدلے ہیں۔ پنجاب کی شہری آبادی زیادہ ریڈیکلائیز ہوئی ہے۔ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آیا ہے جو دائیں بازو سے تعلق رکھنے کے باوجود جمہوریت اور بھارت سے دوستی کرنے کے ساتھ کھڑا ہے۔ نواز شریف اس نظام کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا ان کو بھی بھٹوازم کے دائرے میں شامل سمجھا جائے گا؟
باغ جناح میں کی گئی اس تقریر میں بعض تضادات بھی موجود ہیں۔ بلاول نے پہلی مرتبہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کی اور اس کے ساتھ گمشدہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے ماما قدیر کی قیادت میں کیے گئے مارچ کا حوالہ بھی دیا۔ لیکن انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ خود پیپلز پارٹی کی دو حکومتوں کے دوران بلوچستان میں کارروائی جاری رہی۔ ان میں ایک دور حکومت ابھی دو سال پہلے کی بات ہے۔
محرومیوں اور ناانصافیوں کا ذکر کرتے وقت وہ کچھ سلیکٹو رہے۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ سرائیکی بیلٹ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے تھر، کاچھو، کوہستان کا ذکر نہیں کیا جہاں گزشتہ دو سال سے قحط سالی ہے۔ تھر میں قحط سے پیدا ہونے والی غذائیت کی کمی کی وجہ سے ڈیڑھ سو سے زائد بچے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ قحط سالی ابھی بھی جاری ہے اور ان کی پارٹی کی حکومت کوئی امدادی کام شروع کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جانیے: پیپلز پارٹی پنجاب، ایک ڈوبتا سورج
سندھی ثقافت کو فروغ دینے اور اجاگر کرنے کے نعرے سے میدان میں آنے والے بلاول نے جلسے سے ایک روز قبل سندھ کے مشہور مزاحمتی کردار ہوشو شیدی کے مزار حاضری دی اور چادر چڑھائی۔ لیکن ان کی تقریر میں سندھ کے بنیادی مسائل کے بارے میں کوئی ذکر کوئی فکر نہیں۔ سندھ اس پارٹی کا آبائی صوبہ ہے جہاں گزشتہ سات سال سے ان کی ہی پارٹی حکومت میں ہے۔ اور یہاں کی ہی حکمرانی پر سب سے زیادہ شکایات ہیں۔
یہ شکایات اچھی حکمرانی کی عدم موجودگی سے لے کر نئی ملازمتوں، تقرریوں، ترقیوں، ترقیاتی کاموں میں میرٹ کو روندنے کے الزامات تک ہیں۔ صوبے کا ہر باشندہ جو جانتا ہے کہ یہاں ریکارڈ توڑ کرپشن ہے، اس کو بلاول کی یہ بات بمشکل ہضم ہوگی کہ سیاسی مخالفت کی بناء پر کرپشن کے الزام لگائے جارہے ہیں۔
اپنے سیاسی سفر کی اس تقریب رونمائی سے دو ہفتے قبل انہوں نے بائیں بازو کو پارٹی کا ساتھ دینے کی اپیل کی تھی۔ اس تقریر میں وہ یہ اپیل بھول گئے۔ اس کے بجائے انہوں نے عراق اور شام کے واقعات کا زور دے کر ذکر کیا۔ اور اس خطرے کو پاکستان کی طرف بڑھنے سے آگاہ کیا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنے کی کوشش کی کہ لبرل اور روشن خیال لوگ اس خطرے کے پیش نظر ان کا ساتھ دیں۔ روشن خیال حلقہ گزشتہ چار دہائیوں سے پیپلزپارٹی کا ساتھ دے رہا ہے۔ لیکن پارٹی کی اس حلقے اور اپنی پالیسیوں کی جانب رویے میں گرم جوشی نظر نہیں آئی۔
اٹھارہ اکتوبر کی یہ تقریر پوری عمر بلاول بھٹو زرداری کی پالیسی تقریر کے طور پر سمجھی جائے گی۔ اس میں کسی نظام کے خلاف یا کسی نئے نظام کے لیے پیغام موجود نہیں۔ آج ملک کی سیاست، اداروں کی حالت اور خود پاکستانی سوسائٹی کی حالت مختلف ہے۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بلاول کی تقریر میں اس طرح کی کسی تبدیلی کا تاثر نہیں ملتا۔
اچھا لگتا ہے کہ بلاول نے کراچی پر حق ملکیت جتایا اور ایم کیو ایم سے مل جل کر رہنے کی اپیل کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے سندھ بھر کو ایک طرف رکھ کر صرف کراچی کے لیے خصوصی پیکیج مانگا جس کا مطالبہ ایم کیو ایم بھی کرتی رہی ہے۔ بلاول شاید نان ایم کیو ایم ووٹ تحریک انصاف یا کسی اور کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے پیپلز پارٹی کے لیے مانگ رہا ہے۔ یہ حوالہ ایم کیوایم کی جانب سے عمران خان کو جلسے کے موقع پر مہمان قرار دینے کا رد دلیل قرادیا جاسکتا ہے۔ ہاں ایک حد تک سندھ کے لوگوں کو اس سے خوش کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کراچی پر حق ملکیت جتایا ہے۔
اگرچہ اعتزاز احسن نے اسی جلسے میں پارٹی میں نوجوانوں اور خواتین کو لانے کو لازمی قرار دے کر واضح اشارہ دیا لیکن بلاول بھٹو زرداری نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اعتزاز احسن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پارٹی کی از سرنو تنظیم اور نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی۔
مزید پڑھیے: پاکستان اور لبرل ازم
کیا واقعی پارٹی اسطرح کی حکمت عملی بنا رہی ہے؟ بظاہر ایسا نہیں لگتا۔ کیونکہ سندھ جو پیپلزپارٹی کا قلعہ ہے اور جہاں حکومت ہونے کی وجہ سے ”شو کیس“ وہاں بھی تقریبا نوے سالہ قائم علی شاہ حکومت اور پارٹی دونوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ پارٹی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو آگے لانے کے تصور کو یوں حل کیا جارہا ہے کہ پارٹی کے موجودہ اسمبلی ممبران اور عہدیداران کے بیٹوں یا پوتوں کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے ”میں باغی ہوں“ کی پوری نظم پڑھی اور خود کو بغاوت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ان کا یہ اعلان چند منٹ قبل ان کے والد کے اس اعلان سے ٹکراؤ میں آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں سب کے ساتھ چلنا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، عدلیہ کے ساتھ اور الطاف بھائی کے ساتھ۔ اس صورتحال میں لگتا ہے کہ ان کی آئیڈیلزم ان کے والد اور پارٹی کے دیگر سینیئر رہنماؤں اور انکلز کی عملیت کے سامنے جھک جائے گی۔
بہرحال دنیا امید پر قائم ہے۔ اور سندھ کے لوگ تو ویسے بھی توکل پر یقین رکھتے ہیں۔ اور امید پرست ہیں، اور اسی امید نے ان کو ایک بار پھر بلاول کی وجہ سے پی پی پی کا ساتھ دینے کے لیے مجبور کیا ہے۔ کیا یہ پوری ہوپائے گی؟
تبصرے (5) بند ہیں