ایک کارآمد ریاست؟

شائع October 27, 2014
ناقص سیاسی کارکردگی نے معاشی پیشرفت کو متاثر کی، پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اور فی کس آمدنی ہندوستان سے پیچھے چلی گئی۔
ناقص سیاسی کارکردگی نے معاشی پیشرفت کو متاثر کی، پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اور فی کس آمدنی ہندوستان سے پیچھے چلی گئی۔

کیا پاکستان کوئی اہمیت رکھتا ہے ؟ بالالفاظ دیگر کیا یہ ملک وہ فوائد حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو پاکستان کی تحریک کی قیادت اپنی طویل جہدوجہد کے بعد امید کرتی تھی؟ اس تحقیق میں نظریہ پاکستان کے جائز ہونے پر سوالات اٹھا کر مداخلت کی جاسکتی ہے، جس کی پاکستان میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

میرا بھی ایسا کوئی ارادہ نہٰں خاص طور پر آج سوالات کرنا علمی مشق سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے، مزید یہ کہ متعدد پاکستانی تاحال اس سوال پر اعتماد کی کمی محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ علمی طور پر بھی، تو میں آزادی کا تعاقب سوالات کے جواب اور اس تجزیے کے ساتھ کروں گا کہ کیا وہ اپنی ابتدائی توقعات میں پورا اترنے میں کامیاب رہی اور اگر نہیں تو مستقبل کا نقشہ کیا ہے۔

عالمی سطح پر لوگ دو رجحانات دیکھ سکتے ہیں، کچھ ممالک اپنی ترقیاتی حیثیت میں اضافے کے لیے سیاسی سماجی یونین کی جدوجہد کرتے ہیں جبکہ کچھ قومی خطے علیحدگی کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، جہاں ترقیاتی طور پر ممالک متحد ہیں وہ بڑی مارکیٹوں اور معشیتوں سے مستفید ہورہے ہیں، قدامت پسند، پسماندہ اور نظرانداز ایسے خطے جہاں معاشی لحاظ سے مواقع موجود ہوں، اس وقت تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں جب انہیں پالیسی اور وسائل مکمل حکومتی کنٹرول فراہم کیا جائے۔

تعلیم اور صنعت کے لحاظ سے پاکستان اپنے ہم عصر ہندوستان کے مقابلے میں انتہائی پسماندہ خطوں میں سے ایک ہے ، تاہم یہاں صنعتی ترقی کے وسیع مواقع دستیاب ہیں جیسے سمندروں کی رسائی، بڑی آبادی، زرخیر زراعت اور چھوٹی مگر تعلیم یافتہ کلاس۔

تو اپنی تحقیق کی بنیاد اس دعویٰ کہ انڈین ہندو اور مسلم جداگانہ تہذیبوں کے حامل تھے، کی بجائے میں اس کی بنیادی 'پسماندہ خطوں' پر رکھ کر تجزیہ کروں گا کہ کیا آزادی سے پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر زیادہ تیزی سے ترقی کرنے میں مدد ملی یا نہیں۔

معاشی طور پر پاکستان (ہندوستان کے مقابلے میں) اقتصادی شرح نمو اور فی کس آمدنی گزشتہ پچاس سال کے دوران زیادہ رہی اور اس کی غربت کی شرح بھی کم رہی یہاں تک آج بھی یہ کم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد اس شعبے میں بہتری آئی ہے۔

یہاں کوئی یہ سوال بھی کرسکتا ہے کہ کیا یہ معاشی پیشرفت مساوی بنیاد پر ہوئی، یقیناً آزادی سے اشرافیہ جیسے جاگیردار، جنرلز، کاروباری شخصیات، بیوروکریٹس اور مولوی وغیرہ زیادہ خوشحال ہوئے، عوام کا کیا ہوا؟ اگرچہ غربت کی کم شرح ظاہر کرتی ہے کہ عوام کو بھی اس سے آمدنی کے لحاظ سے کچھ فائدہ ہوا ہے، مگر پاکستان کے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ناقص کارکردگی یہ بھی ظاہر کرتی ہے ان فوائد کو وسیع پیمانے تک توسیع نہیں دی جاسکی۔

دوسری چیز معاشی پیشرفت کا معیار ہے، پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں ہائی ٹیکنالوجی صنعتوں کو قائم کرنے میں زیادہ کامیاب نہٰں ہوسکا، پاکستان کی شرح نمو میں زیادہ اضافہ امریکی امداد اور مشرق وسطیٰ سے آنے والی ترسیلات زر پر ہے، اگرچہ آزادی سے داخلی فلوز میں اضافہ ہوا مگر انہیں مستحکم ترقی کو فروغ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکا، اہم بات یہ ہے کہ آزادی سے جو کچھ معاشی فوائد حاصل ہوئے مگر خراب طرز حکمرانی نے انہیں پھیلنے سے روک دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان سیاسی طور پر زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکا یا نہیں؟ ہندوستان کے جمہوریت کے حوالے سے مستقل عزم کے برعکس پاکستان جمہوریت اور آمریت کے درمیان لٹکتا رہا ہے، منتخب یا غیرمنتخب رہنماﺅں نے عوام کے مسائل کے حل کے لیے زیادہ کچھ نہٰں کیا، نسلی تناﺅ بڑھا ہے، حالیہ دہائیوں کے دوران انتہاپسندی کے فروغ سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ گیا، ناقص سیاسی کارکردگی نے معاشی پیشرفت کو بھی متاثر کیا اور پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اور فی کس آمدنی کی شرح ہندوستان سے پیچھے چلی گئی۔

آخر پاکستان سیاسی پیشرفت میں اتنی خراب کارکردگی کیوں دکھا رہا ہے؟ اکثر اسے بدقسمتی سے منسوب کیا جاتا ہے یا اشرافیہ کے مختصر گروپ کی سازش، جنھیں کسی طرح فوری طور پر ہٹانے سے طرز حکمرانی میں زیادہ بہتری کی توقع کی جاتی ہے، مگر حقیقت زیادہ پیچیدہ ہے۔

گورننس کا معیار بنیادی طور پر معاشرتی شخصیات کی ساخت سے متعلق ہوتا ہے، جیسے معاشی پیشرفت قدرتی، ٹیکنالوجیکل اور انسانی وسائل سے مشروط ہوتی ہے، چنانچہ گورننس میں بہتری مخصوص افراد یا خاندانوں کو ہٹانے سے نہیں ہوتی بلکہ ان ساختی رکاوٹوں پر قابو پانے سے ہوتی ہے جس میں وقت لگتا ہے۔

دیگر پسماندہ ممالک (جیسے بنگلہ دیش، اریٹیریا، جنوبی سوڈان) بھی آزادی کے بعد فوری، وسیع یا مسلسل معاشی فوائد کے حصول میں اسی طرح کی سیاسی رکاوٹوں کے باعث ناکام رہے، یہ تجربات "پسماندہ سب ریجن تھیسس" پر نظرثانی کا عندیہ دیتے ہیں، معاشی اور سیاسی نموپذیری کا لازمی تجزیہ کیا جانا چاہئے تاکہ تقسیم ہونے والے خطوں میں آزادی کے بعد کے مقاصد کی بہتر پیشگوئی کی جاسکے۔

ایسے تجزئیوں سے علیحدگی پسندوں کے جذبات پر بند نہیں باندھا جاسکتا، ان کے مقاصد کے لیے سرد معاشی اعدادوشمار اور دیگر نظریاتی عناصر (پاکستان) یا استحصال کا تاثر ساتھ رہنے کو ناقابل تصور(بنگلہ دیش) بنادیتے ہیں۔

تاہم ایسے تجزیے سے آزادی کے بعد زیادہ حقیقت پسندانہ توقعات باندھنے میں مدد دی جاسکتی ہے، اگر وہاں معاشی بہتری کے باجوود سیاسی رکاوٹیں زیادہ ہوں تو متوقع معاشی فوائد اسی وقت کارآمد ہوتی ہیں جب سیاسی مسائل پر قابو پالیا جائے، پاکستان کے معاملے میں سیاسی مجبوریوں میں بتدریج کمی آرہی ہے اور یہاں توقع ہے کہ زیادہ مسافع اور پائدار معاشی ترقی گورننس میں بہتری کے نتیجے میں دیکھنے میں آسکتی ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ

لکھاری ایک سیاسی و معاشی تجزیہ کار اور یو سی بارکلے کے سنیئر فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024