مسئلے کا سادہ حل؟ پابندی
عید کا پہلا دن تو مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جبکہ دوسرے اور تیسرے دن کی سرکاری چھٹیاں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ وقت گزارا جاسکے۔ کئی لوگ کافی خرچہ کر کے دن بھر باہر گھومتے پھرتے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے لوگ جھیلوں اور پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں، لاہور میں چڑیا گھروں اور تاریخی مقامات پر گہما گہمی ہوتی ہے، تو کراچی کا ساحلِ سمندر سارا دن شہریوں کو اپنی ٹھنڈی ہواؤں اور روایتی اسنیکس کے ساتھ تفریح طبع فراہم کرتا ہے۔
لیکن اس دفعہ عید پر جو ہزاروں لوگ کوسٹرز، موٹرسائیکلوں، اور گاڑیوں میں ساحل کی سیر کو پہنچے، ان کے تمام منصوبوں پر پولیس چوکیوں، رکاوٹوں، خاردار تاروں، اور قانون کے محافظوں نے پانی پھیر دیا۔ اس کی وجہ وہ واقعہ تھی، جو اس عید الفطر کے موقعے پر ساحلِ سمندر پر پیش آیا تھا۔
تقریباً دو درجن لوگوں کی سمندر میں ڈوبنے سے موت ہوگئی، جس میں سب سے زیادہ اموات سی ویو پر ہوئیں۔
حکام نے بالکل وہی ردِ عمل دکھایا، جو کہ ان کی ہمیشہ سے خاصیت ہے، دفعہ 144 کا نفاذ، اور ساحل پر جانے پر پابندی۔ یہاں تک کہ سی ویو جانے والی سڑکت کو بند کرنے کا انتہائی قدم بھی یہ سوچے بغیر اٹھایا گیا، کہ جن لوگوں کے گھر وہاں ہیں، انہیں اپنے گھروں تک پہنچنے میں مشکلات ہوں گی۔
لیکن اس وقت کسی نے بھی اس پر زیادہ صدائے احتجاج بلند نہیں کی، کیونکہ ضائع ہونے والی جانوں کا سب ہی کو افسوس تھا، اور ویسے بھی چھٹیاں ختم ہوچکیں تھیں۔ اور کئی لوگوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ مون سون نے واقعی سمندر میں خطرناک چڑھاؤ پیدا کردیا تھا۔
لیکن عید الاضحیٰ کے موقع پر جب مون سون ختم ہوجانے کی وجہ سے سمندر پرسکون ہوچکا تھا، تب بھی سمندر میں جانے پر پابندی برقرار تھی۔ ہزاروں لوگ جب ساحل کی سیر کو پہنچے، تو انہیں پانی تو دور ریت پر جانے تک سے منع کر دیا گیا۔
اور کیونکہ یہ پاکستان ہے، تو کئی لوگوں کو پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ کچھ لوگ جو پہنچ والے تھے، یا پولیس اہلکاروں کی مٹھی گرم کر سکتے تھے، وہ باآسانی سمندر میں جا پائے۔ باقی لوگ مایوس واپس لوٹ گئے۔
پابندی کو پہلے حل کے طور پر استعمال کرنا پاکستان میں بہت عام ہے، اور یہ واقعہ اس کی واضح مثال ہے۔ ایسی پابندیوں کی وجہ سے تمام لوگوں کو سزا ملتی ہے۔ خطرناک پانی میں لوگوں کے تیرنے کے مسئلے کو مزید لائف گارڈز کی تعیناتی، واچ ٹاورز کی تعمیر، اور لوگوں کو خطرے کی آگاہی دے کر حل کیا جاسکتا ہے۔ مہذب معاشروں میں تو یہی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں شاید ایسا کچھ نہ ہی ہو۔
فیصلہ سازوں سے اگر اس بارے میں پوچھا جائے، تو وہ یہی کہیں گے کہ پاکستانی لوگ کسی خطرے کی پرواہ نہیں کرتے، بلکہ آگے سے بحث کرنے لگتے ہیں۔ یہ بات درست ہے۔ ہم سب ہی کے مشاہدے میں ہے کہ لائف گارڈز سمندر میں بہت زیادہ آگے جانے سے منع کرتے ہیں تو انہیں بدتمیزی، یہاں تک کہ تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان کچھ لوگوں کی وجہ سے ان سینکڑوں لوگوں پر پابندی عائد کرنا زیادتی ہے جو کہ احتیاط سے کام لیتے ہیں، یا جن کے گھر سمندر کے پاس ہیں، یا وہ لوگ جو ساحل پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔
یہ ہمارے فیصلہ سازوں کا مائنڈسیٹ ہے، کہ پہلے پابندی لگا دو، اور اس کے بعد کچھ بھی نہ کرو۔ اور ایسا پہلی بار نہیں بلکہ کئی بار ہوچکا ہے۔ میں یہاں صرف دو مثالیں دوں گی۔
لاہور کا بسنت میلہ شہر کے سب سے پر لطف فیچرز میں سے تھا۔ پورا شہر ہی چھتوں پر چڑھ کر پتنگیں اڑاتا جس سے فضا خوشیوں، گانوں، اور قہقہوں سے بھر جاتی۔ لیکن پھر کچھ لوگوں نے بلیڈ جیسی تیز ڈور کا استعمال کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں گئیں۔
شہری حکام نے پہلے تو دھاتی ڈور کی تیاری اور فروخت سے نمٹنے کی کوشش کی لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو انہوں نے اس کا آسان حل نکالا، اور بسنت کے میلے پر ہی پابندی عائد کردی۔ پتنگیں اڑنا بند ہوگئیں، اور اب لاہور کے موسمِ بہار میں وہ بات نہیں جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہر سال بسنت فیسٹیول میں ملک بھر سے لوگ شرکت کے لیے آتے تھے، جس کی وجہ سے شہر کو معقول آمدنی ہوا کرتی تھی، لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بجائے اب ہم پتنگ اڑانے کے سنگین جرم میں نوجوانوں کی گرفتاریوں کی خبریں سنتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی غلطی کی سزا سب لوگوں کو۔
تیسری مثال ایک شرپسند شخص کی ہے جس نے دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر یوٹیوب پر ایک ویڈیو ڈال دی، جسے توہین آمیز قرار دیا گیا۔ اور پھر ہمیں معلوم ہے کہ ریاست نے اس کے خلاف کیا قدم اٹھایا۔ یوٹیوب پر پابندی پچھلے دو سالوں سے عائد ہے، اور بہت کم توقع ہے کہ یہ پابندی اب کبھی اٹھائی جائے گی۔
کیا اس ملک کی انتظامیہ کبھی اندھی پابندیاں لگانے کے بجائے مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اجتماعی طور پر لوگوں کو نقصان نہ ہو؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔