• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

معیشت پر نوبیل انعام یافتہ پروفیسر پاکستان کو کیا سکھا سکتا ہے؟

شائع October 19, 2014 اپ ڈیٹ January 30, 2016
فرانس کے پروفیسر جین ترولی کو مارکیٹ پاور اور ریگولیشن کے قابل قدر کام پر 2014 کا معاشیات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا— اے پی فوٹو
فرانس کے پروفیسر جین ترولی کو مارکیٹ پاور اور ریگولیشن کے قابل قدر کام پر 2014 کا معاشیات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا— اے پی فوٹو

اشیائے خورونوش سے لے کر عام استعمال کی اشیاءتک پاکستانی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

انہیں منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کہ پاکستان کی 1947 میں تشکیل کے بعد سے مارکیٹ پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ صارفین ناقص معیار کی اشیاءپر ہمیشہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

رواں برس نوبیل انعام جیتنے والی ایک شخصیت کی کوششیں پاکستانیوں کو ریاستی اجارہ داری اور نجی منافع خوروں کے ظلم و جبر سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

فرانس کے پروفیسر جین ترولی کو مارکیٹ پاور اور ریگولیشن پر ان کے قابل قدر کام پر 2014 کا معاشیات کے نویبل انعام سے نوازا گیا۔

ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح مارکیٹ پاور پر مضبوط گرفت اور قیمتوں کا تعین صارفین کے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، ان کا یہ کام نجکاری پر خوش پاکستان سے بھی متعلق ہے کیونکہ یہ ترقی پذیر معیشتوں کے حوالے سے ہے۔

متعدد تاریخ دان اس بات پر اصرار کرچکے ہیں کہ برطانوی عہد کے ہندوستان میں مسلم اشرافیہ مارکیٹ سے باہر نکلنا چاہتے تھے جہاں انہیں مخصوص حلقوں کے درمیان محدود مسابقت کا سامنا ہوتا جس کے نتیجے میں اس کا فائدہ منافع خوروں کو ہوا، بیس خاندانوں کی اصطلاح اس گٹھ جوڑ کا حوالہ ہے جو پاکستان کے آغاز مارکیٹس اور قیمتوں پر کنٹرول کررہا تھا، اسی کو دیکھتے ہوئے معروف شاعر حبیب جالب نے اپنی مقبول نظم 'بیس گھرانے' تحریر کی۔

گزشتہ چھ دہائیوں میں مزید متعدد گھرانوں نے اس گٹھ جوڑ کے حجم کو بڑھایا ہے اور اس کا نتیجہ یکساں ہی نکلا ہے، یعنی زرعی صنعتی پاور ہاﺅسز کا ایک چھوٹا مگر انتہائی بااثر گروپ اور پاکستانی مسلح افواج کے صنعتی، تجارتی، رئیل اسٹیٹ یونٹس مارکیٹوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

بینک، شوگر اور اسٹیل ملیں، دفاعی پیداوار، زراعت، لائیواسٹاک، درآمد، برآمد اور افغانستان و چین سے اسمگل اشیاءسب انتہائی طاقتور افراد کے ہاتھوں میں ہے، جو قیمتوں کا تعین اور مارکیٹ میں داخلے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

پڑوسی ہندوستان کے ساتھ موزانہ کیا جائے تو پاکستانی انڈین عوام کے مقابلے میں اشیاءاور خدمات پر قابل ذکر طور پر نمایاں قیمتیں ادا کررہے ہیں۔

اشیائے صرف کی قیمتیں پاکستان میں ہندوستان کے مقابلے میں 11?6 فیصد زائد ہیں، پاکستان میں ریسٹورنٹس انڈیا کے مقابلے میں چالیس فیصد زائد مہنگے ہیں، جبکہ عام اشیاءاوسطاً 2?2 فیصد زیادہ مہنگی ہیں، مخصوص اشیاءجیسے دودھ انڈیا کے مقابلے میں نمایاں (26 فیصد) مہنگا ہے، اسی طرح سفید چاول ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان میں 61 فیصد مہنگے ہیں، مگر دوسری جانب سیب پاکستان میں 43 فیصد سستے ہیں، مجموعی طور پر پاکستانیوں کی قوت خرید ہندوستانیوں کے مقابلے میں 48 فیصد کم ہے۔

چونکہ بہت کم پاکستان ہندوستان جاپاتے ہیں اس لیے ان حقائق کو بڑی اکثریت نظرانداز کردیتی ہے، یہاں تک کہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں جان بچانے والی ادویات اوسطاً کافی سستی ہیں، ہندوستان کے ایک دورے کے دوران ہم نے سیر کے لیے کرائے پر گاڑیاں لیں اور جب یہی تجربہ پاکستان میں کیا تو یہ جانا کہ یہاں یہ لاگت تین گنا زیادہ ہے۔

بگ میک کی قیمتوں میں واضح فرق

پاکستان میں تو برگر بھی بہت مہنگا ہے، درحقیقت ہندوستان کے مقابلے میں یہ 74 فیصد زیادہ مہنگا ہے(باوجود اس کے کہ ہندوستان میں گائے کے گوشت کی فروخت اور استعمال پر کافی پابندیاں ہیں)، 1986 میں جریدے اکنامسٹ مختلف ممالک میں میکڈونلڈ کے برگرز کا تعین اس میں استعمال ہونے والی اشیاءکی قوت خرید کے حساب سے کیا تھا، اب میکڈونلڈ کا برگر عالمی سطح پر معیاری پراڈکٹ بن چکی ہے جس میں متعدد اشیاءکا استعمال ہوتا ہے، جولائی 2014 میں پاکستانی ایک برگر پر اوسطاً 3?04 ڈالرز ادا کررہے تھے جو کہ ہندوستان میں اسی طرح کے برگر کے مقابلے میں 74 فیصد زیادہ ہے۔

تو اس کی وجہ کیا ہے؟

اب پروفیسر جین ترولی کی جانب واپس آتے ہیں جو دنیا میں مارکیٹ پاور اور ریگولیشن پر اہم اتھارٹی رکھتے ہیں، رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز نے پروفیسر ترولی کو "ہمارے عہدے کے سب سے بااثر ماہر معاشیات میں سے ایک" قرار دیا ہے، ان کی تحقیق پر مبنی گیارہ کتابیں اور دو سو مضامین شائع ہوچکے ہیں، جن میں ان بااثر افرادکو ریگولیٹ کرنے پر توجہ دی گئی ہے جو مارکیٹ پر کنٹرول حاصل کرکے غیرمنصفانہ فائدہ اٹھاتے ہیں، انہوں نے ریاستی اجارہ داری والی متعدد صنعتوں کی نجکاری کے بعد صورتحال جیسے ریلوے، ٹیلی کمیونیکشن اور طبی سہولیات پر تحقیق کی ہے، گیم اور کنٹریکٹ تھیوری کو استعمال کرتے ہوئے پروفیسر ترولی نے یہ دریافت کیا ہے کہ ریاستی اداروں کی نجکاری سے ضروری نہیں عام افراد کو فائدہ ہو۔

انہوں نے دو وجوہات دریافت کی ہیں جو نجکاری کے متوقع نتائج میں رکاوٹ بنتے ہیں، پہلا یہ نجی شعبہ منا فو خور ہوجاتا ہے(بڑی کمپنیوں کا ایک چھوٹا گروپ) جو قیمتوں، تعداد، اشیاءکے معیار اور خدمات کا تعین کرتا ہے، دوسری چیز یہ لاگت کے اسٹرکچر اور پروڈکشن انفرادی کمپنیوں کے پروڈکشن فنکشنز کے حوالے سے ریگولیٹری اتھارٹی کے بارے میں معلومات کی کم دستیابی انہیں زائد منافع کمانے سے روکنے میں ناکام رہتی ہے۔

پاکستانی معیشت کسی بھی ریگولیٹر کے لیے بھیانک خواب سے کم نہیں، طاقتور افراد نے ریاستی سبسڈیز کا ایک ایسا جالا بن رکھا ہے جو انہیں مسابقتی مارکیٹ میں اجارہ داری کا موقع فراہم کرتا ہے، جس سے کچھ حلقے ہی اسٹرکچر لاگت اور ریاست کی ضمانتی قیمتوں سے مستفید ہوپاتے ہیں ، جس کا نتیجہ جدت سے محروم زرعی صنعتی منظرنامے کی شکل میں نکلتا ہے جہاں تجارت اور صارفین بقاءکی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

میرے مختصر تجزئیے کا مقصد اس موضوع پر پروفیسر ترولی کی پیچیدہ اور جامع تحقیق کو جائز قرار دینا نہیں، رائل سوئیڈش اکیڈمی کی اکنامک سائنسز پرائز کمیٹی نے ان کی ریاستی مشق اور مارکیٹ پاور و ریگولیش کی تھیوری پر پچاس صفحات پر مشتمل تجزئیوں کو پیش کیا ہے، ان حقائق کو یہاں نمایاں کرنے کا مقصد پاکستان سے اس کی نسبت کو واضح کرنا تھا۔

اگر اس شعبے پر روک ٹوک نہ کی گئی تو پاکستان قرض دینے والے اداروں سے ادھار فنڈز لینے کی جدوجہد کرتا رہے گا، اس کے رہنماءپیداواری کامیابیوں یا مارکیٹ کی افادیت کی بجائے اس بات کی کوشش کرتے رہیں کہ آخر کس طرح قوم کے لیے مزید قرضہ حاصل کیا جاسکے، جس سے ترقی کا عمل بمشکل ہی آگے بڑھ سکے گا۔

بقا اور کامیابی کے لیے پاکستان کو مارکیٹ انتظام میں بہتری لانا ہوگی، زوال پذیر ریاست اور معاشرے کو اس وقت تک بحال نہیں کیا جاسکتا جب تک مارکیٹوں کو موثر طور پر ریگولیٹ نہیں کیا جاتا۔

اگر پاکستانی حکومت تبدیلی کے لیے مدد چاہتی ہے تو تو اسے تولویوز کے اچھے پروفیسر تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

انگریزی میں پڑھیں۔

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anwar Qureshi Oct 20, 2014 01:59pm
انڈیا اور پاکستان کی قیمتوں کے تقابل کے بار ے میں ایک بنیادی سوال۔ جس ویب سائٹ کے مواد کی بنیاد پر یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کیا اس سیب سائٹ پر پاکستانی اور انڈین روپے کی قدر کے فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے؟ آج کل ایک انڈین روپے کی قیمت تقریباً 1.67866 پاکستانی روپے ہے۔ اس لحاظ سے جو اشیا ۱۰۰ انڈین روپے اور ۱۶۷ پاکستانی روپے میں دستیاب ہوں، برابر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024