ملالہ کا تقابلی جائزہ
آپ اس کی مدد تو نہیں کرسکتے مگر اسے دیکھ کر اور سنتے ہوئے مسکرا سکتے ہیں، وہ ایک خیال کا عملی مجسمہ ہے اور یہ کتنا زبردست خیال ہے۔
ملالہ کیا کہتی ہے اور آپ کے لیے کیا چاہتی ہے، انتخاب کا ہونا اور انتخاب کی مشق کا حق، ازادی، انتخاب، حقوق، کہا جاسکتا ہے کہ یہ سننے میں بہت فلسفیانہ ، دقیق اور بلندوبالا لگتے ہیں۔
ملالہ اسے سادہ بنا دیتی ہے، آپ اس کو سنیں اور آپ کو فوری طور پر احساس ہوگا کہ وہ جو کہہ رہی ہے بہت اچھا خیال ہے کیونکہ یہی چیز تو اسے خاص بناتی ہے، پرفکر، اسمارٹ، ہمدرد اور کون ایسا بننا نہیں چاہتا؟ کون ملالہ کو نہیں چاہتا؟
اوہ ہاں نفرت کرنے والے اس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس نفرت کے باعث وہ اپنا نکتہ ثابت کرپاتی ہے، یعنی آزادی، انتخاب اور حقوق، ہم یہ سب کسی نہ کسی حد تک چاہتے ہیں۔
نفرت کرنے والے کچھ افراد کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ملالہ کیا کہہ رہی ہے اور وہ اسے سمجھتے بھی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک گولی اس کے سر میں اتار دی تھی۔
اگر ملالہ ایک خیال ہے تو طالبان بھی خود کو ایسا ہی سمجھتے ہیں، اور خیالات کی اس جنگ میں یہ واضح ہے کہ ملالہ سیدھی راہ پر ہے، اور ہماری طرف یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کہ اس کا خیال جیت رہا ہے۔
مگریہ چیز اس کی جدوجہد کو زیادہ قابل قدر بناتی ہے، اللہ اس کی مدد کرے اور اسے محفوظ رکھے۔
اس سے بھی کم اہمیت کی جدوجہد،،،، رواں ہفتے کشمیر کا تنازعہ ایک بار پھر بھڑک اٹھا، پاکستان ستم زدہ اور ہندوستان آگ برسانے میں مصروف ہے، متعدد لوگ مارے جاچکے ہیں اور کوئی بھی ہمیں یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ آخر ہوکیا رہا ہے۔
یہاں سے ہمیں کہاں جانا چاہئے؟
امن ناں، دونوں کے درمیان حالات معمول پر لانا اسی وقت ممکن ہے جب چار حلقے اٹھ کھڑے ہو: یعنی دونوں ممالک کے عوام اور دونوں ریاستیں۔
آپ کو ہندوستانی عوام اور ہندوستانی ریاست کو حالات معمول پر لانے کے لیے پاکستان کے ساتھ یکجا کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو پاکستانی عوام اور پاکستانی ریاست کو بھی یکجا کرنا ہوگا۔
ان کو ایک قطار میں لانا مشکل ترین کام ہے، جب دونوں ریاستیں حالات معمول پر لانے کے لیے اکھٹی ہوتی ہیں تو ایک یا دونوں ممالک کے عوام الگ جاکھڑے ہوتے ہیں، یا جب عوام یکجا ہوتے ہیں تو ریاستیں الگ ہوجاتی ہیں۔
اس وقت ممکنہ طور پر صرف پاکستانی عوام ہی حالات معمول کی جانب لانے والی طرف کھڑی ہے۔
باقی تینوں بظاہر اس میں دلچسپی نہیں لے رہے اور اس کے نتیجے میں وہ پاکستانی عوام کے اندر موجود حالات معمول پر لانے کی خواہش کو بھی راہ سے ہٹا دیں گے۔
اس وقت امن کا قیام بہت مشکل ہوجاتا ہے جب ددوسرا فریق جنگ کے راستے پر ہو، یقیناً اس کی وضاحت ممکن ہے کہ آخر ہندوستان اتنا جھگڑالو کیوں ہے اور پاکستان دیکھنے میں اتنا مفاہمت پسند کیوں۔
چھوٹی ریاست کی حیثیت سے شرارتی رویہ ریاستی آپشنز کا حصہ نہیں ہوسکتا اور پاکستان اپنے سرکاری بیانات یا اعلانات میں معقول یا مناسب رویے کا ہی متحمل ہوسکتا ہے، اس کے مقابلے میں بڑی ریاستوں کے عزائم بھی بلند اور آپشنز محدود ہوتے ہیں، اس لیے ہندوستان کے لیے غضیلا اور دوسروں کو خوفزدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
دونوں ریاستیں اس حقیقت سے واقف ہیں اور وہ اس کھیل کو بہتر طریقے سے کھیلنا سیکھ رہی ہیں، مگر اس سے بنیادی ہیئت تبدیل نہیں ہوتی یعنی دونوں اطراف کے چار حلقے جو کبھی ایک قطار میں کھڑے نہیں ہوتے اور اس وقت ایسا نظر آتا ہے کہ وہ یکجائی سے بالکل مختلف راستے پر چل نکلے ہیں۔
اس سے بھی کم تر اہمیت کی جدوجہد،،،، عمران ملک بھر میں بھاگتے پھر رہے ہیں تاکہ اپنی بیس کو بڑھا سکیں مگر ان کا مسئلہ وہی پرانا ہے، ان کی بیس اتنی بڑی نہیں کہ دشمن پر غلبہ پاسکے۔
ان کے جلسے بڑے ہیں مگر پاکستان اس سے بھی زیادہ بڑا بلکہ بہت بڑا ہے اور پی ٹی آئی اس بات سے واقف بھی ہے، باقی ہم سب کے لیے مزید مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز بھی اس سے واقف ہے۔
مسئلہ اس لیے کیونکہ ن لیگ نے احتجاج کو ماضی کے حصے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے، حکومت اپنا اطمینان پھر حاصل کررہی ہے اور پھر سے رفتار پکڑنے لگی ہے، یہ اس صورت میں اچھا ہے اگر نواز لیگ طرز حکمرانی کے بارے میں اپنے طرزفکر پر بھی نظرثانی کرے۔
ن لیگ کے حلقوں میں یہ سرگوشیاں پھیل رہی ہے کہ اعلیٰ قیادت پر موجود افراد تبدیلی کے خواہشمند ہیں، اور طویل المیعاد تبدیلیاں ناگزیر ہوگئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ن لیگ تیراکی کا کریش کورس کررہی ہے کیونکہ وہ ڈوبنے کے لیے تیار نہیں۔
تاہم مسائل وہی پرانے ہیں، جنھیں دیکھ کر آپ کو اس پر یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔
ہم نے یہ پہلے بھی سنا تھا اور اب دوبارہ سن رہے ہیں، وہ یہ ن لیگ کسی فزیشن کی طرح نظر نہیں آتی کوئی ایسا جو اپنا علاج خود کرسکے، ایک حکومت جو اعتماد، اعتبار اور ہر شعبے میں ناکام نظر آرہی ہو اور اایک ایسا مخالف جس کے پاس کوئی متاثرکن پیغام نہیں، تو جلد سے ملالہ کی جانب واپس چلتے ہیں۔
کیوں ہم اس سے وضاحت یا اسے چیلنج کرتے ہیں جب وہ اپنے بارے میں بات کررہی ہوتی ہے جیسے " اپنی کہانی کے ذریعے میں خواتین کو بتانا چاہتی ہوں، میں دنیا بھر کے بچوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، وہ کسی کا انتظار نہ کریں، ان کی آواز زیادہ طاقتور ہے"۔
یا یہ جملہ "دیکھنے میں ہوسکتا ہے کہ وہ کمزور ہوں مگر اس وقت جب کوئی نہیں بول رہا ہوتا آپ کی آواز زیادہ بلند آہنگ لگتی ہے اور ہر ایک اسے سنتا ہے، ہر ایک کو اسے سننا چاہئے"۔
ملالہ کے بقول "یہ اعزاز ان سب بچوں کے لیے ہے جو آواز سے محروم ہیں، جن کی آوازوں کو سنا جانا چاہئے، میں ان کے لیے بولتی ہوں اور ان کے لیے کھڑی ہوں، میں ان کی اس تحریک میں شامل ہوگئی ہوں ان کی آواز کو سنا جانا چاہئے اور انہیں حقوق ملنے چاہئے"۔
ان سب کا تقابلی جائزہ یعنی افسوسناک اناپرستی جو عمران میں ہے، بے حسی جو نواز میں ہے اور بدصورت پاک ہندوستان تعلقات۔
اب ملالہ کے الفاظ دیکھیں" میرے بھی عام بچوں کی طرح خواب ہیں، ایک وقت تھا جب میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر اب میں ایک سیاست دان ایک اچھی سیاست دان بننا چاہتی ہوں"۔
ملالہ وزارت عظمیٰ کے لیے؟ کم از کم اس نے اپنے اس خیال سے ہمیں مسکرانے پر مجبور تو کر ہی دیا۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئیٹر پرcyalm@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں