ملالہ اور کیلاش: امن اور اجالے کے سفیر
یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ جس دن (11 اکتوبر) اقوام متحدہ کی جانب سے نوعمر بچیوں کا دن منایا جارہا تھا اسی دن پاکستان کی سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی ہندوستان کے ساٹھ سالہ کیلاش ستیارتھی کے ساتھ امن کے نوبیل انعام کی حقدار قرار دی گئی، اور اس طرح وہ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخص بن چکی ہیں۔
سوات کی ملالہ یوسف زئی ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے لڑتی ہوئی انتہاپسندوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنی لیکن دوسری زندگی پا کر اس نے اس مشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔
ملالہ یوسف زئی اگر ایک طرف پاکستانی شناخت کے ساتھ اس ملک کے لیے سرمایہ افتخار ہے تو دوسری جانب اس ریاست کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتی ہے جو دہشتگردی کو لگام دینے میں اس حد تک ناکام ہے کہ اس بہادر لڑکی کو اپنے ملک کی سرزمین پر تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
آج ساری دنیا میں ملالہ کی کامیابی کا جشن منایا جارہا ہے۔ امن کی سفیر یہ لڑکی دنیا بھر میں گھوم گھوم کر بوکوحرام کے مجرمانہ افعال کی مذمت کرتی اور ان لڑکیوں کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے جسے دہشتگردوں نے اغوا کرلیا تھا، اسلامک اسٹیٹ کے اس ایجنڈے کے خلاف آواز بلند کرتی ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں عورتوں سے ان کی اظہار کی آزادی اور تعلیم کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان آج بھی اسی تنگ نظری کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کا نوبیل انعام ملنے پر خراج تحسین پیش نہیں کیا، صرف اس لیے کہ وہ احمدی پاکستانی تھے۔
پڑھیے: ڈاکٹر سلام کا خط، ملالہ کے نام
اور آج جب ملالہ کو یہ اعزاز ملا ہے تو انتہا پسند قوتیں اس پر کفر کے فتوے لگارہی ہیں اورانہیں اس اعزاز میں مغربی سازشوں کی بو آتی ہے۔ انہیں یہ سازشیں اس وقت کیوں نہیں دکھائی دیتیں جب وہ بلا جھجک اس جدید ترین ٹیکنولاجی کا استعمال کرتے ہیں جو مغرب کی ایجادات ہیں۔ لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ ان رجعت پسندوں کے خلاف روشن خیالی کی آوازیں ابھر رہی ہیں، بھلے ہی اتنی طاقتور نہیں۔
پاکستان کی ملالہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کو امن کا نوبیل انعام دے کر نوبیل کمیٹی نے ہندوستان اور پاکستان کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ دونوں ممالک اچھے ہمسائیوں کی طرح امن کے لیے مل جل کر کوشش کریں۔ آج جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ہورہی ہیں، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کے حکمران اور سیاستدان امن کی ضرورت کو محسوس کریں۔
دونوں ہی ممالک میں افلاس اورغربت ایک اہم مسئلہ ہے جہاں کی قابل لحاظ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، لڑکے اور لڑکیاں جبری محنت کا شکار ہیں، انھیں اغوا کرکے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لڑکیاں جنس کی طرح بازاروں میں فروخت کی جاتی ہیں، عزت کے نام پر ان کی مرضی کے بغیر ان کا سودا کیا جاتا ہے۔ ملالہ اور ستیارتھی اب دو ایسی آوازیں بن گئے ہیں جو لڑکیوں اور جبری محنت کرنے والے بچوں کے حقوق کے علمبردار ہیں۔
کیلاش ستیارتھی خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک میں رہ کر بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی 'بچپن بچاؤ تحریک' پاکستان کے لیے بھی محرک بن سکتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں میں بھی ایسی بہت سی تنظیمیں موجود ہیں جو بچوں کے حقوق کے لیے سرگرمی سے کام کررہی ہیں لیکن آج بھی پاکستاں کے پانچ سال سے نو سال تک کی عمر کے پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے تو یہ ہماری ریاست اور سول سوسائٹی کے لیے ایک لمحہ فکر ہے۔
مزید پڑھیے: ملالہ، کیلاش کا نوبل انعام، دونوں ملکوں کی افواج کو ایک پیغام
تقریباً ایک سال پہلے پاکستان کی نامور لکھاری کاملہ شمسی نے گارڈین کے لیے ملالہ کا انٹرویو کیا تھا (ڈان 12 اکتوبر 2014)۔ انہوں نے ملالہ سے سوال کیا تھا کہ ان کے خیال میں طالبان اس سے ڈرتے کیوں ہیں۔ پہلے تو وہ ہنس پڑی پھر اس نے کہا، "میں نہیں جانتی، لیکن لوگ کہتے ہیں انہیں تعلیم سے خوف آتا ہے۔ وہ ہماری اس جدوجہد سے خوفزدہ ہیں جو ہم لڑکیوں کے حقوق کے لیے کررہے ہیں۔ پھر اس نے کہا یہ میری زندگی ہے اور مجھے حق ہے کہ میں اسے اپنی مرضی کے مطابق بسر کروں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ میں کسی کی غلام نہیں نہ ہی ان کی ہم خیال۔ میں اپنا فیصلہ اپنی سوچ کے مطابق کروں گی"۔
ملالہ قلم اور کتاب کی طاقت سے واقف ہے۔ وہ جانتی ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ روشن خیالی کی قوتیں امن کے ان سفیروں کے ہاتھ مضبوط کریں، تاکہ اندھیروں کے سفیروں اور تعلیم دشمنوں کو شکست دی جاسکے۔ اگر آج ہم نے تعلیم اور امن کے لیے اٹھنے والی ان آوازوں کی حمایت نہ کی، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔