جنوبی پنجاب کا کیس
اسلام آباد میں جاری سیاسی سرگرمیاں، جن کا محور پنجاب ہے، اور پی پی پی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جنوبی پنجاب نے مزید صوبوں کے مسئلے کو ایک بار پھر سر اٹھانے میں مدد دی ہے۔ اس مسئلے کے پیچھے بنیادی منطق بہت سادہ ہے، اور وہ یہ کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے ملک کو صرف چار وفاقی اکائیوں کی مدد سے نہیں چلایا جاسکتا۔
سامنے موجود تمام پروپوزل میں شاید جنوبی پنجاب کا ہی کیس سیاسی اور ترقی کے حوالے سے سب سے فوری طور پر ممکن ہوسکتا ہے۔ پنجاب اس وقت دنیا کی سب سے بڑی وفاقی اکائیوں میں سے ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کے کئی ممالک سے بھی بڑا ہے۔
ماضی کے سازگار حالات کی وجہ سے پنجاب کے شمالی حصوں میں کافی سرمایہ آیا ہے، شہروں کی آبادی بڑھی ہے، اور پنجاب سے لوگوں کی ہجرت میں بھی اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے برعکس جنوبی پنجاب میں کم سازگار ماضی کی وجہ سے غربت و ناانصافی میں اضافہ، جبکہ کوئی خاص ترقی یا حالاتِ زندگی میں بہتری نہیں دیکھی گئی۔
بہرحال، ترقی وغیرہ کو ایک طرف رکھیں، تو اس صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سیاسی اعتبار سے بھی ضرورت ہے۔ اس وقت قومی اسملبی کی آدھے سے زیادہ سیٹیں (272 میں سے 148) پنجاب میں موجود ہیں، جس میں سے 100 سیٹیں شمالی اور وسطی پنجاب کے گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
نتیجتاً، سیاسی جماعتوں کی ساری توجہ ان 100 حلقوں کی جانب رہتی ہے، جبکہ مراعات یافتہ سیاستدانوں کو غربت زدہ جنوبی پنجاب سے جیتنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اسٹریٹیجی کا وہ انتخاب ہے، جو نہ صرف حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے کیا ہے، بلکہ صوبے میں اس کی مرکزی مخالف پاکستان تحریک انصاف نے بھی کیا ہے۔
اور اس کے نتیجے میں ہم کیا ہوتا دیکھ رہے ہیں؟ حکومت پر مسلسل یہ الزام ہے، کہ اس نے شمالی پنجاب میں اپنے گڑھ میں سارا ترقیاتی فنڈ لگا دیا ہے، جبکہ جنوبی پنجاب پر شاذ و نادر ہی کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ اور آج تک بھی مسلم لیگ ن نے خود کو ملک کے دوسرے حصوں میں لوکل سطح پر مستحکم کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت پر بھی الزام ہے، کہ اس نے خیبر پختونخواہ سے اپنی توجہ اس لیے ہٹائی ہوئی ہے، تاکہ پنجاب کے مرکزی و شہری ضلعوں میں حمایت اور مقبولیت حاصل کی جاسکے۔ میرٹ اور کرپشن کے بارے میں ان کا مؤقف ان علاقوں میں موجود حالات کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر، کہ یہ اندازے صحیح ہیں یا نہیں، لیکن علاقائی سطح پر ناانصافیوں اور غیر متوازن سیاسی ترجیحات کے بارے میں جذبات پائے جاتے ہیں۔
تو اہم سوال یہ ہے، کہ کیا صوبے کی دو حصوں میں تقسیم سے مندرجہ ذیل دو مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ 1۔ ترقیاتی اخراجات اور ڈیلیوری کا مسئلہ، 2۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور وفاقیت (federalism) کا مسئلہ۔
پہلا مسئلہ تو بالکل سادہ ہے۔ حالیہ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم خزانے اور انتظام و انصرام کی نئے صوبے کو منتقلی یقینی بناسکتی ہے، جس کے بعد پیسہ اس صوبے کے ان علاقوں میں خرچ ہوگا جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
کوئی بھی منصوبہ بندی 36 کے بجائے 13 یا 15 ضلعوں کے لیے ہوگی، اور اس صوبے کے نئے چیف ایگزیکٹو کے لیے کام کا بوجھ اس وقت لاہور میں موجود چیف ایگزیکٹو کی بہ نسبت کافی کم ہوگا۔ ترقی کے حوالے سے ان تمام نکات، اور عالمی سطح پر موجود مثالوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے، تو پنجاب میں ایک نئے صوبے کا کیس کافی مضبوط ہے۔
دوسرا مسئلہ، جو سیاسی جماعتوں، ان کے مفادات، اور وفاقیت کے بارے میں ہے، تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔ ایک نیا صوبہ بالکل ایک کورے کاغذ پر تو بنایا نہیں جارہا۔ یہاں پہلے سے سیاست کا اپنا ایک روپ ہے، جس کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت ریجن میں موجود سیاسی حالات کو دیکھا جائے، تو نئے صوبے اور پرانے صوبے میں من چاہے سیاسی نتائج صرف تب ہی حاصل ہوں گے، جب ان کے ووٹر مختلف اشوز پر مختلف انداز میں ووٹ کریں۔
2013 میں پاکستان مسلم لیگ ن نے جنوبی پنجاب میں 2008 کے مقابلے میں 25 سیٹیں زیادہ حاصل کیں۔ ریجن میں موجود 48 سیٹوں میں سے صرف 8 سیٹیں دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ملیں، اور باقی مسلم لیگ ن کو، یا پھر ان بااثر آزاد امیدواروں کو جنہوں نے بعد میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ وجہ کوئی بھی ہو، لیکن جنوبی پنجاب نے بالکل شمالی پنجاب کی طرز پر ہی ووٹ کیا۔ انہی رائے دہندگان (electorate) نے الگ صوبے کے لیے آواز اٹھانے والی پی پی پی کو 2013 کے عام انتخابات میں 2008 کی 21 سیٹوں کے مقابلے میں مٹھی بھر سیٹوں تک محدود کر دیا۔
اگر ایک نیا صوبہ بنایا جاتا ہے، تو مسلم لیگ ن پھر بھی پورے پنجاب ریجن میں غالب ہوگی، جبکہ نئی وفاقی اکائی کو مختص کی جانے والی سینیٹ کی سیٹوں کے ذریعے سینیٹ میں بھی خود کو مضبوط کر لے گی۔
تو کہانی کا سبق یہ ہے کہ جب تک پنجاب میں بنیاد رکھنے والی ایک جماعت شمالی پنجاب میں ترقیاتی کام کروا کر، اور جنوبی پنجاب میں سیاسی اشرافیہ کی مدد سے جیتتی رہے گی، تب تک پارٹی کی ترجیحات اور وفاقی سطح پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن دو طریقے ہیں جس سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ اگر نیا صوبہ جادوئی طریقے سے اشرافیہ کی مداخلت سے وجود میں آجائے، تو امید کی جاسکتی ہے، کہ نئے صوبے کے رائے دہندگان شمالی پنجاب کے پراکسی اشرافیہ کو مسترد کردیں۔ اس سے اچھے نتائج حاصل تو ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔
دوسرا اور زیادہ بہتر حل یہ ہے کہ اگر پی پی پی اور دوسری خودمختاری کی حامی جماعتیں جنوبی پنجاب میں عوام کو علاقائی اشوز پر منظم کرنے کے لیے کام کریں۔ اس سے یہ ہوسکتا ہے، کہ ووٹنگ کے نتائج شمالی پنجاب کے مقابلے میں کافی مختلف آئیں۔ اور پھر یہ ہوگا، کہ موجودہ حکمران جماعت کو دوسرے نظرانداز کر دیے گئے علاقوں کی جانب توجہ کرنی ہی پڑے گی۔
لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @umairjav کے نام سے لکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں