قدرتی آفات اور پاکستان
سیلاب نے ایک بار پھر ملک کی عوام کو دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قدرتی آفات کے باعث سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اور بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوچکی ہے۔ عوام ایک بار پھر بلبلا اٹھی ہے۔
اس سے پہلے بھی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہمارے ملک کے تقریباً دس لاکھ لوگ بنوں میں زیر عتاب ہیں۔ اس کے علاوہ دو صاحب اور بھی ہیں جو اسلام آباد میں کیمپ لگائے بیٹھے ہیں، اور خود کو نظام اور انتخابات متاثر کہہ رہے ہیں۔ ان تینوں قسم کے متاثرین کے بارے میں تفصیلی بحث آئندہ کسی بلاگ میں ضرور کریں گے۔
اس وقت ملک میں اہم ترین مسئلہ سیلاب ہے تو بات اسی پر کرنی چاہیے۔ جولائی 2010 میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 ملین یعنی 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 307,374 مربع میل علاقہ زیرآب آیا تھا اور تقریباً دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے انفراسٹرکچر اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010 کے اس سیلاب سے ملکی معیشت کو تقریباً 4.3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
2010 کے سیلاب سے بڑے پیمانے پر سڑکیں تباہ ہوئیں، 10,000 کے قریب ٹرانسمیشن لائنیں اور ٹرانسفارمرز متاثر ہوئے، جبکہ 150 پاور ہاؤسز زیرآب آئے۔ جس کے باعث 3۔135 گیگا واٹ توانائی کا شارٹ فال ہوا۔
نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 29 ستمبر تک تقریباً 2,523,681 لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 360 افراد جاں بحق، 646 لوگ زخمی، اور 56,644 گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 4065 سے زائد دیہات بھی متاثر ہوئے، جبکہ 2,416,558 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور 8957 سے زائد مویشی سیلاب میں بہہ گئے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق قدرتی آفات سے پہلے انتظامات پر جہاں ایک ڈالر خرچ آتا ہے، وہاں آفات کے بعد سات ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قبل از آفات انتظامات نہ کرنے سےخرچ 6 گنا بڑھ جاتا ہے اور جانی نقصان اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ مگر کیا کہنے ہماری حکومتوں کے۔ تاریخ گواہ ہے کے پاکستان میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر کبھی بھی کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے۔
اس وقت سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ریسکیو کا عمل جاری ہے جس میں ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور پاک فوج حصہ لے رہی ہے۔ جبکہ سیلابی ریلا آگے کی جانب گامزن ہے جس سے مزید قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کا خدشہ ہے۔
2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد عدالتی کمیشنز بنے، جنہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنی رپورٹس مرتب کر کے صوبائی حکومتوں کے حوالے کیں۔ ان رپورٹس میں انتظامیہ کی جانب سے برتی جانے والے غفلت سمیت کئی چیزوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مگر حسب معمول فائلیں سرد خانے کے حوالے کر دی گئیں۔
2010 کے سیلاب میں سندھ کے کئی سیلاب زدہ علاقوں میں جو عام شکایات میرے سامنے آئیں، وہ دریائی راستوں اور نکاسی آب کے راستوں پر ناجائز تجاوزات تھیں۔ کئی متاثرین نے بات چیت کے دوران مجھے بتایا کہ نکاسی آب کے قدرتی راستوں پر دریاؤں کے بندوں کو ہموار کر کے وہاں آبادی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا دباؤ بڑھا اور کئی جگہوں پر شگاف پڑے جن کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمارے ملک میں ایک اور چیز بھی عام ہے، وہ ہے کچے میں آبادی، جس کو ہماری عوام اپنا حق سمجھتی ہے اور انتظامیہ بھی اس قسم کے تجاوزات کی جانب توجہ نہیں دیتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمور سے کیٹی بندر تک کچے میں تقریباً 24 لاکھ افراد مقیم ہیں اور وہاں زراعت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر پانی کا بڑا ریلا دریائے سندھ سے گزرتا ہے تو وہ ابتدائی طور پر 24 لاکھ کی آبادی کو متاثر کرے گا جو زبردستی متاثر ہونے کے مترادف ہے۔
سندھ میں قدرتی آبی راستوں پر ناجائز تجاوزات کے خلاف سندھ اسمبلی میں قانون بھی پاس ہو چکا ہے، جس کے تحت تجاوزات میں ملوث افراد پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ قانون بھی بالکل ویسے ہی ردی کی نذر ہوچکا ہے جیسے کہ دیگر قوانین۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ناجائز تجاوزات میں وہ لوگ ملوث ہیں جو سیاسی حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا جن کے دم پر ایم پی اے یا ایم این اے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔
پاکستان میں عموماً قوانین بنتے ہی توڑے جانے کے لیے ہیں، اور ان پر عملدرآمد کے بجائے ان کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔
اب جب کہ پاکستان کی حکومتیں جانتی ہیں کہ climate change کی وجہ سے ہر سال سیلاب میں شدت آنے کا امکان ہے تو ایسے میں ایوانوں میں یہ کہنا کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا اور اچانک سیلاب آ گیا، ایک مجرمانہ غفلت کو چھپانے کی ناکام کوشش کے مترادف ہے۔ اس قسم کی احمقانہ باتوں کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضور قدرتی آفات بتا کر نہیں آتیں ہر ملک ممکنہ خطرے کے پیش نظر بندوبست کرتا ہے، اور اپنی عوام کی جان و مال کے ہر ممکن تحفظ کے لیے عملی بندوبست کرتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ National Climate Change Policy منظور ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ذمہ دار ادارے اور وزراء اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تمام ترقی یافتہ ممالک میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پاس پیشنگوئی کے باوجود کوئی انتظامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ تباہ کاریوں کے بعد، بجائے اس کے کہ کمزوریوں اور غلطیوں سے سبق سکھ کر مستقبل میں ایسی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی جائے، ہم ایک دوسرے کے خلاف الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ویسے بھی پالیسیوں پر عملدرآمد تو ہوتا نہیں ہے تو بنانے کا فائدہ کیا ہو گا۔ جو پہلے بنی ہوئی ہیں، وہ بھی منوں مٹے تلے دب چکی ہیں۔
جب تک ہمارے ملک میں قوانین سنجیدگی سے نہیں بنیں گے، اور ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا، ہم ہردفعہ ایسے ہی نقصانات کا سامنا کرتے رہیں گے، اور عوام کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ساتھ ساتھ معیشیت بھی ڈوبتی چلی جائے گی۔