'خود کو سمجھاتا ہوں لوڈشیڈنگ میری غلطی نہیں'
پاکستان تاریخ کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہا ہے اور یہ مسئلہ شہریوں کی زندگی کا ایک جزو بن چکا ہے۔
ایسے میں ڈان نے سوئچ کے پیچھے موجود شخص، یعنی سب سٹیشن آپریٹر سید کامران سے گفتگو کی۔
کامران اسلام آباد میں شیڈول کی لوڈ شیڈنگ پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہیں، وہ سوئچ آن / آف کر کے مختلف علاقوں میں پروگرام کے تحت لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں۔
ان سے جانتے ہیں کہ وہ ہزاروں لوگوں کے لئے مسئلہ کا سبب لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے وقت لوگ واٹر اور پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کو برا بھلا کہتے ہیں، ایسے میں آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
کامران: میں بھی کبھی ان لوگوں میں شامل تھا جو واپڈا اور آئیسکو کو بجلی جانے پر برا بھلا کہتے تھے۔اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں ایک دن اس محکمہ کا حصہ بن جاؤں گا اور بجلی کا سوئچ میرے ہاتھوں میں ہوگا۔
شروع شروع میں بھاری دل کے ساتھ کسی علاقے کا سوئچ آف کرتا تھا ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں پریشانی کا سبب بن رہا ہوں ۔ اسی طرح لوڈ شیڈنگ کا وقت ختم ہونے پر سوئچ آن کرتے ہوئے میں خوش ہو جاتا تھا۔
لیکن میں اب اسے صرف ملازمت سمجھتا ہوں۔یہ کام میری ذمہ داری ہے کیونکہ مجھے اسی کام کی تنخواہ ملتی ہے۔
کیا آپ کے دوست احباب آپ پر لوڈ شیڈنگ کا الزام لگاتے ہیں؟
کامران:پہلے پہل میرے اہل خانہ اور دوست مجھ پر الزام لگاتے تھے لیکن اب انہیں سمجھ آ گیا ہے کہ میں اس کا ذمہ دار نہیں۔
مجھے خو د کو بھی بتانا پڑا کہ میں اس لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار نہیں۔ مجھے ہیڈ آفس سے لوڈ شیڈنگ کا شیڈول ملتا ہے جس پر میں عمل درآمد کرتا ہوں۔
دوسری جانب، میں یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ خود ہیڈ آفس بھی لوڈ شیڈنگ نہیں چاہتا۔ اگر بجلی چوبیس گھنٹے میسر ہو گی تو خود کمپنی کو زیادہ آمدنی ہو گی۔
کیا آپ کو شہریوں کی ٹیلی فون کالیں آتی ہیں ، جن میں مختلف وجوہات کی بناء پر لوڈ شیڈنگ موخر کرنے کی درخواست کی جاتی ہو؟
کامران: کئی لوگ گرڈ سٹیشن کال کر کے ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں قرآن خوانی یا دوسری تقریب ہو رہی ہے لہذا ہم لوڈ شیڈنگ نہ کریں۔
ایسے میں ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ ہیڈ آفس سے رابطہ کریں کیونکہ گرڈ سٹیشن پر موجود عملہ اس طرح کے فیصلوں کا مجاز نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں