• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

فرقہ واریت کے خلاف جنگ ناگزیر

شائع September 24, 2014
ہم اپنے پڑوسیوں کو، مغرب کو، مریخ پر رہنے والی مخلوق کو، سب کو الزام دیں گے، لیکن اپنے رویوں کو دیکھنا ہمیں نہیں آتا — فوٹو وائٹ سٹار
ہم اپنے پڑوسیوں کو، مغرب کو، مریخ پر رہنے والی مخلوق کو، سب کو الزام دیں گے، لیکن اپنے رویوں کو دیکھنا ہمیں نہیں آتا — فوٹو وائٹ سٹار

اگست کا مہینہ ختم ہوتے ہوتے 2 لاکھ سے زیادہ لوگ دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) نامی تنظیم کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے تھے۔ اس تنظیم کی جانب سے یہ قتل و غارتگری پچھلے چار سالوں سے جاری ہے۔

ہلاکتیں بلاتفریق تھیں، اور جیسا کہ جنگوں میں ہوتا ہی ہے، بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ قتل انتہائی وحشتناک تھے، جن میں سے کئی کیسز میں تو سروں کو جسموں سے الگ کر کے سلاخوں پر لگا کر ٹرافیوں کی طرح نمائش کی گئی۔ طریقہ واردات میں روایتی ٹارگٹ کلنگ سے لے کر روڈ کنارے بم (آئی ای ڈی) شامل رہے۔

کسی اور جگہ، کسی اور دن، اس خبر نے 25 لاکھ لوگوں کی لبنان، ترکی، اور اردن کی جانب ہجرت کی خبر کے ساتھ مل کر تہلکہ مچا دیا ہوتا۔

لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متقی لوگوں اور اس کی میڈیا کے پاس ابھی سر کھپانے کے لیے دوسرے بہت سے مسائل ہیں۔

پاکستان میں قتل ہونے والے شیعہ مسلک کے لوگوں کی تعداد اسرائیل کے ہاتھوں مرنے والے غزہ کے شہریوں سے تقریباً سو گنا زیادہ ہے۔ لیکن ہم جانے انجانے میں اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ مرنے والوں کا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے۔


پڑھیے: فرقہ وارانہ گرہ


مثال کے طور پر، فرقہ وارانہ ذہنیت جس نے ملک کی اکثریت کے دماغوں کو زہریلا کر رکھا ہے، کیا یہ ایک پریشان کن بات نہیں جس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت پیش آئے؟

پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بنایا جاسکتا ہے، اس کی مثال یہ ہے، کہ ایک دفعہ 80 کی دہائی کے اواخر میں شیعہ برادری پر صرف اس لیے حملہ کیا گیا تھا، کہ انہوں نے چاند دیکھنے کے مسئلے میں اختلاف کیا تھا۔ حملوں کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوئے، اور معصوم لوگوں کی عید کا جنازہ نکال دیا گیا۔

ان حملوں کی بربریت، اور حملہ آوروں کی وحشی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہیں، تو ایک دفعہ ایک پوری فیملی کو رسیوں سے باندھ کر باری باری ایک ایک کے سر میں باقیوں کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔ ایک اور واقعے میں ایک باپ اور بیٹے کو اتنی دفعہ خنجر مارے گئے، کہ گننے کے لیے 10 سے زیادہ انگلیوں کی ضرورت پڑی۔

ٹارگٹ ہونے والے لوگوں کی بات کریں، تو ایک ایڈیشنل سیشن جج سے لے کر ایک معروف پروفیسر عطاءالرحمان، اور کوئٹہ میں زیر تربیت پولیس اہلکار، سب ہی اس میں شامل ہیں۔

پڑھے لکھے اور ان پڑھ، غریب اور امیر، نوجوانوں اور بوڑھوں، سب ہی کو بلا تفریق نشانہ بنایا گیا، اور نشانہ بنانے کی وجہ کیا تھی؟ صرف ان کے مذہبی عقائد۔


مزید پڑھیے: کراچی میں فرقہ وارانہ دہشتگردی


لیکن اس سب کے باوجود ہم شتر مرغ کی طرح اپنے سر ریت میں دبا لیتے ہیں، اور اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ مسائل آہستہ آہستہ ہماری قوم کے وجود اور ملک کے نظریے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، لیکن ہم صرف ایک کام اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں، اور وہ ہے دوسروں پر انگلیاں اٹھانا۔

ذرا اس اشو پر بحث شروع تو کر کے دیکھیں بھئی۔

اور ساتھ ہی سازش کی تھیوریاں پیش ہونے لگیں گی۔ ہم اپنے پڑوسیوں کو، مغرب کو، مریخ پر رہنے والی مخلوق کو، جن بھوتوں کو، سب کو الزام دیں گے، لیکن اپنے رویوں کو دیکھنا ہمیں نہیں آتا۔

اور فطری طور پر جیسے ہی فرقہ واریت کا سوال اٹھایا جائے، تو تنقید کرنے والے اپنی تنقید کا رخ مذہبی رہنماؤں کی جانب موڑ دیتے ہیں، اور یہ بلاوجہ بھی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس توجہ طلب مسئلے پر رہنمائی کر سکتے تھے، مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ شیطانی کھیل پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہورہے ہیں، کہ اب اسے روکنا ناممکن سا لگنے لگا ہے۔


مزید پڑھیے: میری بیٹی اور کائنات


اگر شیطان سے لڑنے کی ضرورت ہے، تو وہ ابھی ہے، فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کی ضرورت ہے، ان کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔

آخر ہم اتنے اہم مسئلے کو کیسے مذہبی رہنماؤں پر چھوڑ سکتے ہیں، جو اس کا رخ اپنے مفادات کے لیے کہیں بھی موڑ سکتے ہیں۔

ہمیں ایک اجتماعی تحریک شروع کرنی ہوگی، جس میں ریاست کے تمام سیاسی و سماجی حلقے شامل ہوں، اور اسے نامور لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔

جب پورا ملک ہی فرقہ واریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا، اور جب سب لوگ مل کر انتہائی صبر کے ساتھ ہمیں تقسیم کرنے والے مسائل کو ختم کرنے کی ٹھان لیں گے، تو ایک وقت آئے گا کہ فرقہ وارانہ حملے ختم ہوں گے۔

یاد رکھیں، آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا، کہ آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر کی جان بچ گئی ہو۔ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ بلی کو حملہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوئی ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

بدر اقبال چوہدری

بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Dr.Salim Haidrani Sep 26, 2014 01:16am
Sectarianism is not a religious formation but it is a political ideology against religious minority or minorities to isolate them from the structure of participation in a society which promotes harmony and cohesion. In Pakistan, Shi'a, Ahmadis, Christians, Hindus and Sikhs face isolation from the communities of Pakistan by religious groups who are sponsored by the state or the by the political ruling elites in Pakistan. Last week, more than 10 newspapers in Pakistan published sectarian - based materials against Ahmadis, Shi'as and Christians and when I wrote a letter to several newspapers to remind them that it is an immoral to create hatred against minorities because they already face persecution in Pakistan. But no newspaper published my letter. Thank you for writing about sectarianism and its ills in our injured world.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024