دھرنے کے شرکاءکو روکنا اسلام آباد کی ٹریفک کے لیے پڑ گیا بھاری
اسلام آباد : عام دنوں میں وفاقی دارالحکومت کی وہ سڑکیں جو ویرانی کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں، میں جمعے کی شام شدید ٹریفک جام کا منظر دیکھنے میں اس وقت نظر آیا جب پولیس کی جانب سے شارع دستور میں جاری دھرنوں میں لوگوں کی رسائی کو محدود کرنے کے لیے متعدد مقامات کو بند کردیا گیا۔
اسلام آباد ایکسپریس وے جڑواں شہروں کو آپس میں ملانے والی مرکزی شاہراہ ہے اور دارالحکومت کے رہائشیوں کی جانب سے ائیرپورٹ تک پہنچنے کا اہم راستہ ہے، تاہم اسے دو گھنٹے تک پولیس جانب سے چیک پوسٹیں بناکر بند رکھا گیا ہے جس سے ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔
جمعے کی شام دارالحکومت کے داخلی راستوں خصوصاً فیض آباد، بارہ کہو اور ترنول کے مقامات پر مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کئی جگہوں پر جھڑپیں بھی دیکھی گئیں، جہاں ایک لین کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا جس کے باعث میلوں دور تک گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔
سہالہ، ترنول، گولڑہ، آئی جے پرنسپل روڈ اور کشمیر ہائی وے کی کئی لینوں کو بھی بند کردیا گیا اور انہیں سنگل لین شاہراﺅں میں تبدیل کردیا گیا۔
دن کے آغاز میں شہر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایکسپریس وے کو بہت زیادہ بجلی کے بلوں اور گیس کی قلت پر احتجاج کے دوران بلاک کردیا، اس دوران انہوں نے ٹائروں اور کچرے کو جلا کر سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کردیا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔
کچھ مظاہرین فیض آباد فلائی اوور پر چڑھ گئے اور پولیس پر پتھراﺅ کیا، ان جھڑپوں کا سلسلہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان رات تک جاری رہا۔
ماضی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کے داخلی راستوں کو کنٹینرز کی مدد سے بند کردیتے تھے تاکہ مظاہرین دھرنوں کا حصہ نہ بن سکیں۔
ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے غیر ضروری بندش کو ہٹانے کے حکم کے بعد اس بار مختلف حکمت عملی پر عمل کیا گیا۔
اس کا کہنا تھا"ہماری حکمت عملی یہ تھی کہ شاہراﺅں تک رسائی کو محدود کرکے مظاہرین کو شارع دستور سے دور رکھا جائے"۔
مارگلا روڈ واحد راستہ تھا جو شارع دستور تک بغیر کسی مداخلت تک رسائی دے رہا تھا، تاہم وہاں ٹریفک جام نظر آیا جس کی وجہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی تعداد کا ڈی چوک میں یوم نجات کی تقریبات میں شرکت کے لیے جانا تھا۔
جمعے کو پولیس افسران کو پکٹس میں تعینات کیا گیا جو ہر گزرنے والی گاڑی کی تلاشی لیتے رہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی جس کا مقصد مظاہرین کو گھر واپس جانے پر مجبور کرنا تھا۔
پولیس حکام اگرچہ احکامات پر عملدرآمد کررہے تھے تاہم ان کی ہمدردیاں مشکل کے شکار مسافروں کے ساتھ تھی، ایک پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا"مظاہرین کے حربوں کے باعث سینکڑوں گاڑیاں طویل قطاروں میں پھنس گئیں"۔
ایک ڈرائیور نے شکایت کی"ہوسکتا ہے کہ سو میں سے دس یا بیس گاڑیاں پی ٹی آئی یا پی اے ٹی کے حامیوں کی ہو مگر بڑی تعداد میں جڑواں شہروں کے رہائشی پولیس کا ہدف بن گئے"۔
ایک موٹرسائیکل چونگی نمبر 26 میں ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہوگیا، کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام کے بعد ٹرک ڈرائیور کو اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی تھی اور وہ پوری رفتار سے موٹرسائیکل سوار پر چڑھ دوڑا۔
متعدد مسافروں نے ائیرپورٹ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر وہ بروقت پروازوں تک نہیں پہنچ سکے جن میں کم از کم بیس اراکین پارلیمنٹ بھی تھے جو کراچی جارہے تھے۔
مرکزی شاہراﺅں پر ٹریفک جام سے راولپنڈی شہر کے اندر بھی ٹریفک متاثر ہوئی اور ٹرانزٹ کیمپ، لیاقت روڈ، اقبال روڈ، سرسید روڈ، سرکلر روڈ اور اصغر مال روڈ کے قریب ٹریفک جام ہوگیا۔
اس صورتحال سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی متاثر ہوئی اور جمعے کو بیشتر مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہوا۔
ڈان نے ایک سرکاری ملازم عامر علی کو اسلام آباد ہائی وے پر آئی ایٹ کے قریب دیکھا، اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہوسٹل میں مقیم ہے اور بارہ کہو کے قریب اپنے گاﺅں کی جانب جارہا ہے۔
اس نے بتایا"میں ہفتہ وار تعطیلات اپنے والدین کے ساتھ گھر میں گزارتا ہوں مگر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث مجھے کافی مشکلات کا سامنا ہے، مجھے لفٹ لے کر آبپارہ جانا پڑے گا جہاں ہوسکتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ مل جائے"۔
ایک اور شہری رشید خان نے شکایت کی کہ جب بھی پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوتی ہے تو ٹیکسی ڈرائیور کرائے بڑھا کر ہم پر چھری پھیرنے لگتے ہیں، متعدد ٹرانسپورٹرز نے بھی پولیس افسران کی جانب سے ہراسان کیے جانے کی شکایت کی۔