ذمہ داری ضروری ہے
دوطرفہ پاک چین کول پاور پروجیکٹ 2013ء کے بارے میں جو تحفظات اٹھائے گئے، وہ افسوس ناک ہیں اور بجائے ایک سنجیدہ پارلیمینٹری کمیٹی کے، ایسےحلقوں کی طرف سے تھے جو عموماً بے مقصد تنقید کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ چاہے ان مجوزہ معاہدوں پر اعتراضات کی نوعیت کیسی ہی ہو، بہرحال ان پرایک سنجیدہ بحث ہونی چاہئے تھی۔ اور اگر ہم راہ ہموار کریں اور مسائل کو ان کے تناظر میں دیکھیں کہ ان منصوبوں کے مواقع کیسے حاصل ہوتے ہیں تو ہم مزید نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔
گزشتہ گرمیوں میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قومی توانائی پالیسی 2013ء کا اجراء کیا۔ اس پالیسی کے اہداف میں سے ایک بجلی کی پیداوار کے اخراجات میں کمی لانے کا تھا اوراس کے لیے پالیسی کی تجاویزکے مطابق، توانائی پیدا کرنے کے لیے گیس (ایک کم ہوتا ہوا وسیلہ) اور فرنس آئل (ایک بہت مہنگا ایندھن) کے بجائے کوئلہ استعمال کرنے کی سفارش کی تھی۔
طویل المیعاد عرصے کے لیے پالیسی کی تجاویز کے مطابق انڈس بیسن پر جہاں پانی تیزی سے خارج ہوتا ہے جیسے کہ تھاکوٹ، پٹن، اور داسو اور بعد میں بنجی اور دیامر۔بھاشا کے مقام پرپانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے جائیں گے۔ یہ خیال تھا کہ کوئلہ نہ صرف کم خرچ ہے بلک کم وقت میں مکمل ہونے والا منصوبہ ہے۔ کیونکہ مالی معاملات کے طے ہونے کے بعد تین سے چار سال کے اندربجلی کی سپلائی شروع ہوسکتی ہے۔ تمام صوبوں کے ساتھ مشاورت کے بعد Council of Common Interest نے اس کو منظور کرکے اس کے نفاذ کے لیے کام شروع کردیا۔
ایک مہینہ کے بعد ستمبر 2013ء میں نیپرا نے کوئلے کے منصوبہ سے پیدا ہونےوالی بجلی کا ٹیرف جاری کردیا۔ اس کا مقصد دراصل اس منصوبے کی کفالت کرنے والوں کو جلد سے جلد اپنے سرمایہ کاری کے مالیاتی فیصلوں پر پہنچنے میں مدد کرنا تھا۔ سرمایہ کاری کے لیے زیادہ پیشکش نہ ہونے کی وجہ سے جس ایک کمپنی نے دلچسپی دکھائی وہ Engro Energy تھی، مگر اس نے بھی مالیاتی مدد کے لیے حامی نہیں بھری، اور یہ اشارہ دیا کہ ٹیرف کی شرح بہت کم ہے۔ نیپرا نے جو محتاط اندازہ لگایا تھا اس میں بھی کوئی خرابی نہیں تھی۔ بلکہ اس قسم کی 'الٹی نیلامی' کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صحیح قیمت مقرر کرنے میں مدد مل جائے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ماحولیات پر کوئلے کے استعمال کے مضر اثرات کا ایک اضافی مسئلہ موجود تھا۔ لیکن وہ بھی اتنا پریشان کن نہیں تھا۔ ہم نے خود کو یقین دلایا کہ پاکستان ہمیشہ پانی سے بجلی پیدا کرتا ہے یا قدرتی گیس استعمال کرتا ہے لہٰذا ہمارے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ دنیا بھر میں صاف ترین ہیں اور تھوڑا بہت کوئلہ استعمال کرلینے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن مغربی مالیاتی ادارے بالکل الگ سونچ رکھتے تھے۔ کوئلہ ان کو کسی طور پر قابل قبول نہیں تھا اور نہ ان کے شراکت داروں کو۔ بہرحال ہمارے سرکلر ڈیٹ کے لاعلاج مرض کی بدولت عالمی مالیاتی ادارے ہمارے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
ان ہی دشواریوں کی وجہ سے حکومت نے چینی قیادت کی جانب دیکھا۔ کئی ایک منصوبوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن پردونوں ملک مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ان میں گڈانی، ساہیوال اور تھر میں دو دو، جبکہ بن قاسم میں ایک پلانٹ شامل ہے۔ کوئلے کی ترسیل کا انتظامی ڈھانچہ اور بجلی کی پیداوار کے بعد گرڈ اسٹیشنوں تک اس کی ترسیل، سب کچھ اس منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں سستی اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی مانگ میں کمی کے سبب چین کے پاور پلانٹ کے صنعت کاروں کے پاس بہت زیادہ طلب بھی نہیں تھی۔ ایک صورت جو ممکن تھی، وہ یہ کہ اگر حکومت پاکستان بجلی کا ٹیرف تھوڑا بڑھائے، اورمنافع کی شرح بڑھائے، تو پھر چین ان منصوبوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔
اس سال جون میں نیپرا نے ٹیرف پر نظر ثانی کی۔ اخراجات کی مد میں کمی کرنے کے لیے، توانائی کے ان منصوبوں کو 80:20 کے Debt-Equity Ratio کی سرمایہ کاری کی بنیاد پر تشکیل دینا ہوگا۔ چینی حکومت کی مالی اعانت قرضے کی رقم کی واپسی کی ضمانت کے طور پرضروری ہوگی۔
اس معاہدے کے بارے میں جو تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں وہ خریداری کے قاعدوں سے روگردانی ہے۔ یہ تحفظات نجی شعبے کے منصوبوں پر جو IPP آئی پی پی کے تحت ہوں ان پرلاگو نہیں ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر حکومت Gencos، جو شاید کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے مشینوں میں تبدیلیاں کرنا چاہیں اور گرین فیلڈ پروجیکٹس جس میں وفاق/ صوبائی حکومت کے حصص ہوں گے، کو خودمختار بورڈوں کے تحت کردے اور انہیں یہ اختیارات دے کہ وہ براہ راست مذاکرات کے ذریعے خریداری کرے اور فی میگا واٹ قیمت، کارکردگی اوردیگر بنیادی امور کے بارے میں عالمی صنعت کے معیارات کو مدنظر رکھے۔
یہ معلومات سب کے لیے ہے اورمفت حاصل کی جاسکتی ہے۔ مزید شفاف بنانے کے لیے اس پر دستخط کرنے سے پہلے عوام کو اس بحث میں شامل کرکے طے پائی تجاویز پر ان کی رائے بھی لی جاسکتی ہے۔ زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے اخراجات میں کمی پالیسی کے اہداف کے مطابق ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ پلانٹ میں استعمال ہونے والا سامان اور اس کی کارکردگی اچھے معیارکی ہے، یا کہیں چینی ریلوےانجن جیسا پچھلا تجربہ تو نہیں؟
لیکن شاید پلانٹ کی اصل لاگت سے زیادہ اہم، وہ مکینزم ہے جس کے ذریعے شفاف طریقے سے ایندھن کی سپلائی کا معاہدہ طے کیا جائے، کیونکہ ایندھن ایک ایسا باربار اور حکومت کے ذمے ڈالا جانے والا خرچ ہے، جس کی قیمت کا تعین کرنا فرنس آئل اور قدرتی گیس کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔
پاکستان کو ایسی توانائی چاہیے جو ہر کسی کے لیے قابل حصول ہو۔ ایک راستے کا تعین ہوا ہے، نقطۂ نظر میں فرق ہوسکتا ہے، لیکن مسائل کو سیاسی مفاد کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔
ترجمہ: علی مظفر جعفری
لکھاری بزنس اسٹریٹیجیسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر moazzamhusain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔