شاہد آفریدی دوبارہ کپتان، ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے
پاکستان کرکٹ بورڈ نے طویل غور و خوض کے بعد ٹی ٹوئنٹی کے کپتان کا نام ظاہر کردیا ہے، جو کوئی اور نہیں بلکہ سب کے جانے پہچانے شاہد آفریدی ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی وہ تمام خوش فہمیاں بھی دم توڑ گئیں جو چند مخصوص حلقوں میں پیدا ہوئی تھیں کہ شاید اس مرتبہ قرعہ فال کسی نوجوان کے نام نکلے۔
لیکن سب توقعات ہوا ہوگئیں اور مختصر ترین فارمیٹ میں ایک مرتبہ پھر شاہد آفریدی بالکل اسی طرح قیادت کے منصب پر بحال ہوگئے ہیں، جس طرح چند ماہ قبل بورڈ نے وقار یونس کو تین سال بعد ایک مرتبہ پھر ہیڈ کوچ کا عہدہ سونپ دیا تھا۔
وقار یونس کو رواں سال مئی میں ہیڈ کوچ کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ بحیثیت کوچ وقار کے پہلے دور کی تلخ ترین یاد شاہد آفریدی کے ساتھ ان کا تنازعہ تھا، جس کا خمیازہ نہ صرف وقار یونس بلکہ ان سے کہیں زیادہ شاہد آفریدی کو بھگتنا پڑا تھا۔ تب نہ صرف 'لالا' قیادت سے محروم کردیے گئے تھے، بلکہ ان کا بین الاقوامی کیریئر بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ وقار یونس نے کوچ کا عہدہ چھوڑ دیا اور چیئرمین اعجازبٹ کے عہد کا خاتمہ ہوا۔
اب قومی کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی دانست میں تو ٹیم کی بہتری کے لیے شاہد آفریدی کو دوبارہ کپتان بنا دیا ہے، لیکن اصل میں یہ فیصلہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے بے جا خوف کو ظاہر کرتاہے۔ یعنی جب آئندہ کئی ماہ تک پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی میں کوئی خاص معرکہ درپیش نہیں، تب بھئ بورڈ کسی نوجوان کھلاڑی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: ٹیم کو محمد حفیظ کی ضرورت ہے
درحقیقت یہ نادر موقع تھا کہ پاکستان آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کسی نوجوان کھلاڑی کو مستقبل کے کپتان کی حیثیت سے تیار کرے۔ رواں سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ملنے والی شکست کے بعد محمد حفیظ کے استعفے نے راہ ہموار کی تھی کہ پاکستان شاہد آفریدی، مصباح الحق اور محمد حفیظ سے آگے بھی سوچے۔ احمد شہزاد، صہیب مقصود یا فواد عالم جیسے نوجوان کھلاڑیوں کو کپتان کی حیثیت سے اعتماد بخشا جا سکتا تھا اور یہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا اثاثہ ثابت ہوتے۔
ابھی حال ہی میں آسٹریلیا نے آرون فنچ کو نیا ٹی ٹوئنٹی کپتان مقرر کیا ہے جبکہ انگلینڈ کے اسٹورٹ براڈ اور جنوبی افریقہ کے فف دو پلیسی عرصے سے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کپتانی کرکے قیمتی تجربہ سمیٹ رہے ہیں۔ حالانکہ ان تینوں ممالک کو قیادت کے کسی بحران کا سامنا نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کررہے ہیں کہ تجربہ کار کھلاڑیوں کے الوداع کہہ جانے کے بعد کوئی نوجوان فوری طور پر ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہو اور بین الاقوامی سطح پر کپتانی کا خاطر خواہ تجربہ رکھتا ہو۔ لیکن پی سی بی شاید "نقل" کرکے بھی پاس ہونے کو تیار نہیں۔
مزید پڑھیے: مصباح الحق یا نواز شریف، کس کا استعفیٰ ضروری؟
ورلڈ کپ 2015ء سے پہلے مصباح الحق کو ہٹا کر کسی دوسرے کھلاڑی کو ون ڈے کپتان بنانے میں ہچکچاہٹ تو پھر بھی سمجھ آتی ہے، لیکن ٹی ٹوئنٹی میں ایک مرتبہ پھر 34 سالہ کھلاڑی پر اعتماد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ بھی اس طرح، کہ ماضی میں اسی کوچ کے ساتھ شاہد آفریدی تنازعے میں الجھ چکے ہیں اور واضح خدشات ہیں کہ ایک مرتبہ پھر دونوں کے مفادات میں ٹکراؤ پیدا ہوسکتا ہے۔
شاہد آفریدی تو اگلے ماہ کے اوائل میں آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں ایک مرتبہ پھر اپنی قائدانہ صلاحیت کو آزمائیں گے، لیکن وقار یونس دوبارہ طاقت پکڑنے والے "لالا" کو کس طرح سنبھالیں گے، یہ وقت بتائے گا۔
نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کرکٹ اب بھی چار سال پہلے والے مقام پر ہی کھڑی ہے، عالمی رینکنگز میں وہی بدترین پوزیشن، وہی پے در پے سیریز شکستیں، وہی کپتان، وہی کوچ، وہی حالات اور شاید وہی نتائج!
تبصرے (2) بند ہیں