اسلام آباد کے شہری ڈپریشن کا شکار
اسلام آباد: ایک طرف حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف کے عمران خان اور عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسلام آباد میں جاری ترقیاتی کاموں اور سیاسی ہلچل کے باعث اسلام آباد کے شہریوں کو روزگار مہیا ہوانے کے ساتھ ساتھ ناصرف ان کا طرزِ زندگی بہتر ہوا ہے بلکہ ان میں سیاسی شعور بھی بیدار ہوا ہے، وہیں دوسری جانب بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتحال نے دارالحکومت میں بسنے والے شہریوں کو ڈپریشن میں مبتلا کرکے ان کی زندگیوں کو تماشہ بنا دیا ہے۔
میٹرو بس پروجیکٹ کے روٹ سے ملحقہ علاقوں میں کاروبار کرنے والے افراد کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث ڈپریشن کا شکار ہیں، دفاتر جانے والے ملازمین مشکلات کا شکار ہیں اور اسکول جانے والے بچے الگ پریشان ہیں کیوںکہ ان کے اسکولوں میں دھرنوں کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد سے باہر سے بلائے جانے والے پولیس اہلکار رہائش پذیر ہیں۔
نو سالہ ثانیہ ہارون اس وجہ سے اپنے والد کے قریب جانے سے کترانے لگی ہے کیوں کہ وہ کچھ دنوں سے بہت جارحانہ موڈ میں رہنے لگے ہیں۔
سیکٹر جی ایٹ کی رہائشی چوتھی جماعت کی طالبہ ثانیہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کے والد ڈپریشن کا شکار ہیں وہ دوسروں خصوصاً اس کی والدہ پر چیخ چلّا کر جس کا اظہار کرتے ہیں۔
ثانیہ کا کہنا تھا کہ 'میری امی نے مجھے بتایا کہ اس کے ابو کی دو مہینے سے طبیعت خراب ہے۔ میں ان کی مدد کے بغیر اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کر سکتی لیکن ان کے قریب جانے سے مجھے ڈر لگتا ہے'۔
پینتالیس سالہ ہارون کی اسلام آباد کے بلیو ایریا میں گارمنٹس کی دکان ہے، جو اب مسلسل مندی کا شکار ہے۔
ہارون کا کہنا تھا کہ 'صرف میں ہی نہیں، حکومت کے میٹرو بس پروجیکٹ سے بلیو ایریا کے بہت سے تاجروں کا کاروبار متاثر ہوا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں ہونے والے تعمیراتی کاموں کے باعث بلیوایریا تک عوام کی رسائی ناممکن ہو گئی ہے اور کسٹمرز اب دوسری مارکیٹوں کا رُخ کرنے لگے ہیں'۔
ہارون خان نے بتایا کہ 'ان مسائل سے اپنی توجہ ہٹانے کے لیے جب میں ٹی وی دیکھتا ہوں تو وہاں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی مسلسل کوریج دیکھ کر مزید ڈسٹرب ہو جاتا ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹروں نے مجھے ماحول کی تبدیلی کے لیے کچھ عرصہ اپنے آبائی علاقے جاکر رہنے کا مشورہ دیا ہے لیکن میں اپنے خاندان کو مشکلات میں گھرے اسلام آباد میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا'۔
ہارون کی طرح اٹھائیس سالہ امبرین چوہان بھی اسی قسم کے ڈپریشن کا شکار ہیں۔
امبرین آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر میں ملازمت کرتی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے جاری سیاسی دھرنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آفس پہنچنا اور پھر واپس گھر آنا میرے لیے مشکلات سے پُر سفر ہوتا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دھرنوں کے باعث ان کا آفس کئی روز تک بند رہا تھا اوراس دوران میرے ڈیسک پر کام جمع ہوتا رہا'۔
امبرین کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد میں مختلف چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے میں کابل میں سفر کر رہی ہوں اور اس اسٹریس کی وجہ سے میرا کام بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے'۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دھرنوں کے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرے تاکہ ان مظاہرین کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے شہری بھی سکون کا سانس لے سکیں۔
امبرین کا کہنا تھا کہ 'اگر ملازمین ایک دو دن چھوڑ کر آفس آئیں تو اس سے آفس ورک متاثر ہوتا ہے'۔
بارہ سالہ طالبہ ندا سلیم نے بتایا کہ ان کا سکول تاحال بند ہے اور وہاں پولیس اہلکار رہائش پذیر ہیں۔
ندا کا کہنا تھا کہ 'میں تو گھر پر رہتی ہوں لیکن میرے بہن بھائی اسکول جاتے ہیں جن کے اسکول میں پولیس والے نہیں ہیں۔ یہ بات میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے'۔
پمز ہسپتال کے سائیکاٹرسٹ پروفیسر رضوان تاج نے اسلام آباد کے شہریوں کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈپریشن کے شکار مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'زیادہ تر مریض اسٹریس، ڈپریشن، غم و غصہ اور بے خوابی کی شکایت لیے ان کے پاس آتے ہیں'۔
پروفیسر رضوان نے بھی حکومت پر زور دیا کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔