• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

چنیوٹ کے گاؤں میں کوئی سرکاری مدد نہیں پہنچی

شائع September 16, 2014
مظفرگڑھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے کا ایک فضائی منظر، ایک مسجد کے چاروں اطراف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز
مظفرگڑھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقے کا ایک فضائی منظر، ایک مسجد کے چاروں اطراف پانی ہی پانی دکھائی دے رہا ہے۔ —. فوٹو رائٹرز

چنیوٹ: ’’ہم نے گاؤں کو خالی کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے اعلانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، اس لیے کہ پچھلے سیلاب میں ہمارے علاقے میں کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب سیلاب کے بڑے ریلے نے ہمارے گاؤں کو نشانہ بنایا، تو ہمیں نکلنے کی کوئی جگہ نہیں مل سکی۔ ہم گھروں کی چھتوں پر پھنسے رہے، جہاں سے ہمیں کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بچایا گیا۔‘‘

یہ کہنا تھا احمد علی کا، جو ٹھٹھہ شاہو گاؤں کے ستر برس کے رہائشی ہیں، یہ گاؤں دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا تباہ کن سیلاب انہوں نے اپنی زندگی میں اب تک نہیں دیکھا تھا، یہاں تک کہ 1972ء کا سیلاب سے بھی اس بڑے پیمانے پر تباہی نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’’میرا دو کمروں کا گھر گرگیا ہے، اور اب ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔‘‘

ڈان کے نمائندے نے ہرسہ شیخ گیارہ کی یونین کونسل کے اس سب سے زیادہ متاثرہ گاؤں کا وزٹ کیا، جو دریائے چناب سے کوئی سو گز کے فاصلے پر واقع ہے۔

دیہاتیوں کی ایک بڑی تعداد مدد کے لیے شدت سے انتظارکررہی تھی۔ لیکن تقریباً دس دنوں کے گزرنے کے بعد بھی انہیں کھانا یا روزمرّہ استعمال ہونے والی دیگر اشیا کی فراہمی کے لیے کوئی نہیں پہنچا۔

حالانکہ ضلعی کی جانب سے بلندبانگ دعوے کیے جارہے ہیں کہ وہ پکا ہوا کھانا اور خشک غذائی اشیاء کا پیکٹ فراہم کررہی ہے۔

اس گاؤں کا ہر فرد سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ گھر، مویشی، قیمتی سامان، فصلیں، سبزچارہ غرضیکہ سب کچھ ہی برباد ہوگیا ہے۔

جب آٹھ لاکھ اکتالیس ہزار کیوسک پانی کے سیلابی ریلے نے اس گاؤں کو نشانہ بنایا، تو اس کے رہائشیوں کو ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے ذریعے بچایا۔

لیکن جب پانی نیچے اُترا اور یہ دیہاتی اپنے گھروں کو واپس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سب کچھ ہی بہہ گیا ہے۔

عارف اس گاؤں کا واحد دکاندار تھا، اس کی دکان کو سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا، اور اس کی چھت گرگئی۔

سیلابی پانی گھروں سے تو نکل گیا ہے، لیکن فصلوں میں اب بھی کھڑا ہے، جو مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا سبب بن جائے گا۔

یہ دیہاتی کھانے پینے کے سامان اور مویشیوں کے چارے کے لیے شہرجانے پر مجبور ہیں، جو یہاں سے سولہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

عارف کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے جنرل اسٹور کو نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے قرضہ حسنہ یا چیریٹی کی کسی اور شکل میں مدد کی جائے۔

ایک دیہاتی اکبر علی نے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ انتظامیہ اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے ہر ایک گاؤں کو خوراک فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ان کے گاؤں میں دس دنوں سے کوئی بھی امداد فراہم کرنے کے لیے نہیں پہنچا ہے۔

ایک گھریلو خاتون زرینہ نے کہا کہ غریب کچھ بھی حاصل نہیں کرپائیں گے، اور تمام امدادی سامان سینئر افسران ہڑپ کرجائیں گے۔

اتوار کی بارش نے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے، اس لیے کہ ان کے پاس سرچھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

زرینہ نے بتایا کہ انتظامیہ کے دعووں کے برعکس اس گاؤں میں کوئی مچھردانی یا خیمہ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ غذائی اشیاء امدادی کیمپوں کے قریب دیہاتوں میں تقسیم کردی گئی تھی، اور جو مستحق تھے وہ محروم رہ گئے۔

دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ فوجی ہیلی کاپٹروں نے منتخب دیہاتوں میں راشن کے پیکٹس بار بار گرائے تھے۔

اگرچہ اس گاؤں میں زیادہ تر لوگوں پر مایوسی غالب تھی، پھر بھی امید کے کچھ آثار موجود تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024