شمالی وزیرستان آپریشن، آگے بڑھنے میں مشکلات حائل
پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے سی ون تھرٹی طیارے سے حاصل ہونے والی تصاویر اتنی اچھی نہیں ہوتیں، جس قدر کہ سی آئی اے کے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں سے حاصل ہوتی ہیں۔
لیکن ان ٹرانسپورٹ طیاروں میں مقامی طور پر تبدیلیوں کے بعد انہیں دن رات کام کرنے والے انٹیلی جنس، نگرانی اور تفتیش کے نظام سے لیس کردیا گیا ہے، جن کے ذریعے حاصل ہونے والی معقول حد تک اچھی تصاویر ایف سولہ کو فراہم کی جاتی ہیں، ان تصاویر کی مدد سے وہ لیزر گائیڈڈ بموں کا مطلوبہ ہدف پر درست نشانہ لگا کر حملہ کرکے ان کا خاتمہ کردیتے ہیں۔
’’کوئی بھی نہیں، وہ خود ہی اپنے آپ کو ہی نشانہ بنارہے ہیں، انہیں معلوم ہوگا کہ انہیں دیکھا جارہا ہے اور ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔‘‘ ایک سیکیورٹی اہلکار نے اس تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، جس میں مردوں کا ایک گروپ ایک کمپاؤنڈ سے باہر نکل رہا تھا اور دوسرا تیزی سے شمالی وزیرستان کے ایک پہاڑی علاقے کی طرف فرار ہورہا تھا۔
یہ تصاویر ایک سی ون تھرٹی طیارے سے لی گئی تھیں، اور اس کے فوراً بعد ایف سولہ نے حملہ کرکے ہدف کو نشانہ بنایا۔
پاکستانی ایئرفورس نے آپریشن ضربِ عضب میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حال ہی میں بمباری شروع کی جو پاکستان میں دہشت گردی کا مرکز بنے ہوئے تھے، اس کے بعد انفنٹری اور مشینی فورسز نے اس علاقے کو خالی کروایا، جہاں پندرہ جون سے پہلے تک ریاست کی کوئی عملدآری نہیں تھی۔
فوجی آپریشن کو شروع ہوئے اب تین ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے، فوج کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی وزیرستان کے علاقے میں 80 فیصد سے زیادہ کا علاقہ خالی کروالیا ہے، جس میں اس کا علاقائی صدر مقام میرانشاہ، تباہ شدہ سب ڈسٹرکٹ میرعلی اور دتّہ خیل تک پھیلی ہوئی 80 کلومیٹر کی رابطہ سڑک بھی شامل ہے۔
ان عوامل کے ساتھ اب فوج دتّہ خیل میں ہے، جو میرانشاہ سے مغرب میں پینتس کلومٹیر کے فاصلے پر واقع ہے، یہاں وہ اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے اور وادیٔ شوال کے گنجان جنگلوں میں سخت جنگ کے لیے آگے بڑھنے کے منصوبوں پر کام کررہی ہے، جہاں اس کو عسکریت پسندوں کی جانب سے داغے گئے کبھی کبھار راکٹ اور مارٹرگولوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
وادیٔ شوال میں جہاں جنگ خونریز اور مشکل ہونے جارہی ہے، کیافوج کو آگے بڑھنے کا فیصلہ کرنا چاہیٔے۔
میرعلی کو خالی کروانے کے بعد فوج اب شمال مغرب میں ٹال میں موجود افواج کے ساتھ شامل ہونے کے لیے سپن وام کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
ہفتے کی رات فرنٹیئر کور کے قلعہ پر ایک راکٹ داغا گیا، جس سے پیراملٹری فوج کے تین سپاہی ہلاک ہوگئے۔
رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسپن وام میں چھپے ہوئے عسکریت پسند اب جنوب میں غیریوم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
نقشے کو دیکھا جائے تو دتہّ خیل، شوال اور اس سے آگے کے علاقوں سمیت شمالی وزیرستان کا تقریباً ایک چوتھائی علاقہ خالی کروانے کی ضرورت ہے۔
چاروں طرف سے گھری ہوئی پیرغیر ایک جانب سے قدرتی قلعہ بند چوٹی ہے، دتّہ خیل میں فوج موجود ہے اور اب سے دو تین مہینے کے بعد برفباری کا موسم آرہا ہے، چنانچہ شوال میں چھپے ہوئے مقامی اور غیرملکی عسکریت پسند آگے بڑھنے میں ایک مشکل چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں پاک فوج کی گاڑی گشت کے دوران۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی |
ایک سیکیورٹی اہلکار نے کہا ’’چاروں طرف برف پھیلی ہوگی اور نقل و حرکت مشکل ہوجائے گی۔ عسکریت پسندوں کے لیے نیچے اترنا مشکل ہوگا، اور جب وہ ایسا کریں گے تو ہم انہیں نشانہ بنالیں گے۔‘‘
حافظ گل بہادر کا ایک اہم کمانڈر جو دوسروں کے برعکس اپنے سربراہ پر امن کے دباؤ ڈال رہا تھا، اس کو حال ہی میں وائرلیس رابطے کے ذریعے اپنے رہنماؤں پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا گیا۔
ایک سیکیورٹی اہلکار کے مطابق حلیم خان کو اسپن وام سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سناگیا’’اگر انہیں یہاں سے بھاگنا ہی تھا تو پھر انہیں نے لڑائی کیوں شروع کی تھی؟‘‘
گزشتہ تین مہینوں سے اب تک، فوج کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ 15 جون کو جب سے فوجی آپریشن شروع ہوا ہے، اس وقت سے فوجی اہلکاروں کی زیادہ سے زیادہ 44 ہلاکتیں ہوئی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر سڑک کے کنارے نصب کیے گئے بموں اور راکٹ حملوں کا نتیجہ تھیں۔
جب کہ فوج کا دعویٰ ہے کہ نو سو سے زیادہ عسکریت پسند دوبدو لڑائی کے بجائے فضائی بمباری سے ہلاک ہوئے ہیں۔
عسکریت گروہوں کی قیادت فرار ہوگئی ہے۔ حافظ گل بہادر اپنے خاندان کے ساتھ افغانستا کے شمال مشرقی صوبے خوست منتقل ہوگیا ہے، اور ایک افغان کمانڈر کےپاس پناہ لے لی ہے۔
دتّہ خیل میں شانزلہ کے علاقے حافظ گل بہادر کی موجودگی کی انٹیلی جنس سے ملنے والی اطلاع پر ایک فضائی حملہ کیا گیا، جس سے اطلاعات کے مطابق اس کے سر میں شدید زخم آئے تھے، لیکن دو انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اصرار ہے کہ عسکریت پسندوں کا یہ کمانڈر حملے میں بچ گیا تھا اور اس وقت خوست میں مقیم ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملّا فضل اللہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے شہریار مسعود کے ساتھ افغانستان کے صوبے پکتیا کے ضلع ناکا میں پناہ لے رکھی ہے۔
خان سعید عرف سجنا نے جنوبی وزیرستان میں عارضی طور پرقیام کیا ہوا ہے، جبکہ اس نے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کی کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں، کہ اس کو ایک محفوظ علاقہ دیا جائے، کچھ فوجی چوکیوں کے مقامات میں تبدیلی کی جائے اور اس کو سرحد پار سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔
پنجابی طالبان کے رہنما عصمت اللہ کو طویل عرصے سے شکروں کے درمیان ایک کبوتر خیال کیا جاتا تھا، انہوں نے حقانیوں کے ساتھ دوبارہ تعلق قائم کرلیا ہے، اور اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستان کے اندر عسکریت پسند جہاد ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اگلے کمانڈر سجنا ہوسکتے ہیں، جن کے ساتھ حکومت ایک خاموش معاہدہ کرنا چاہے گی۔
جہاں تک غیرملکی عسکریت پسندوں کا تعلق ہے تو ان میں ازبک، چیچن، چینی یوغور مسلم اور کچھ عرب بھی شامل ہیں، ایسی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ وہ شوال سے وانا اور اس کے بعد ژوب سے اپنے نئی جہادی منزل شام منتقل ہوگئے ہیں۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے سب نہیں گئے ہیں، بہت سے اپنے خاندانوں کو یہیں چھوڑ گئے ہیں۔
یہ حکام کہتے ہیں کہ اس منتقلی کے ساتھ منسلک خطرات کی وجہ سے امکان ہے کہ القاعدہ کی جنرل کمان اسی خطے میں موجود ہے۔
لیکن جیسا کہ ضربِ عضب منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے، اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ یہ کارروائی جلد ختم ہوجائے گی۔
بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ کم از کم دسمبر کے آخر تک اس آپریشن کے جاری رہنے کا امکان ہے۔
اس کے بعد تعمیر نو کا عمل شروع ہوگا، یہ عمل اب تک شروع نہیں ہوا ہے، خاص طور پر میرعلی، جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد فوج اپنا قیام جاری رکھے گی۔ اس کا کنٹرول علاقے کو خالی کروانے کے بعد بھی قائم رہے گا؟
آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت مئی 2009ء میں سوات سے عسکریت پسندوں کے صفایا کے لیے فوج کو طلب کیا گیا تھا۔ پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی فوج کا کمانڈنگ کردار اب بھی وہاں موجود ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں