• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

داعش کو روزانہ لاکھوں ڈالرز کی آمدنی

شائع September 14, 2014
داعش اب تک عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر چکی ہے — فوٹو وائس آف امریکا
داعش اب تک عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر چکی ہے — فوٹو وائس آف امریکا

واشنگٹن: ماضی میں خلیج فارس سے ملنے والے عطیات پر انحصار کرنے والے داعش کے عسکریت پسند اب مالی طور پر خود کفیل ہو چکے ہیں۔

امریکا کے انٹیلی جنس حکام اور دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش کو تیل کی سمگلنگ، انسانی ٹریفکنگ، چوری اور بھتہ سے روزانہ تیس لاکھ ڈالرزسے زائد رقم مل جاتی ہے۔

ایک امریکی انٹیلی جنس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ داعش تاریخ کا سب سے زیادہ وسائل رکھنے والا دہشت گرد گروپ بن چکا ہے۔

یہ دیگر وجوہات میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے جو امریکی حکام کے لئے باعث تشویش ہے، حالانکہ امریکا کو داعش سے براہ راست اپنی سر زمین پر کسی قسم کے دہشت گرد حملے کا خطرہ نہیں۔

خیال رہے کہ داعش نے شام اور عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور مبصرین کے مطابق دو ملکوں میں گیارہ تیل کے کنویں شدت پسند گروپ کا زیر تسلط ہیں۔

داعش کردوں کے کنٹرول میں شمالی عراق، ترکی اور اردن میں حکومتوں کی عین ناک تلے کئی نسلوں سے سمگلنگ کے لئے موجود نیٹ ورک کے ذریعے تیل اور دیگر مصنوعات بیچ رہی ہے۔

امریکی انٹلی جنس اداروں کو یہ تو معلوم نہیں کہ آیا یہ حکومتیں سمگلنگ میں داعش کے ساتھ ہیں لیکن اوباما انتظامیہ نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ مزید کریک ڈاؤن کریں۔

مبصرین نے بتایا کہ زیادہ تر غیر قانونی تیل ٹینکر ٹرکوں کے ذریعے ترسیل کیا جا رہا ہے۔ماضی میں کردستان میں بطور امریکی امدادی رضاکار کے طور پر کام کرنے والے اور اب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سینئر ریسرچ فیلو ڈینس نتالی نے بتایا کہ اس طریقے کار سے بہت زیادہ پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ '

کردوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سمگلنگ کو روکنے کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن آپ سرحد پر تعینات گارڈ کو اور دوسروں کو کچھ پیسے دیں اور تیل لے کر چلے جائیں'۔

قطر میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے دوحہ سینٹر میں وزیٹنگ فیلو لوائے ال خطیب نے بتایا کہ عام طور پرایک بیرل تیل کی قیمت سو ڈالرز سے زیادہ ہے لیکن داعش سمگل شدہ تیل سے فی بیرل 25 سے 60 ڈالرز کما رہی ہے۔

خطیب کا اندازہ ہے کہ شدت پسند گروپ کو تیل سے روزانہ تیس لاکھ ڈالرزسے زیادہ کمائی ہو رہی ہے۔

خطیب کے مطابق، گروپ نے عراق سے نوادرات کی ترکی سمگلنگ کے ذریعے بھی لاکھوں ڈالرز کمائے ہیں۔

اسی طرح گروپ کو خواتین اور بچوں کو جنسی غلام کے طور پر فروخت سے بھی لاکھوں ڈالرز کی آمدنی ہوئی۔

مبصرین نے بتایا کہ دوسرے ذرائع آمدنی میں بھتہ، اغواء برائے تاوان اور شہروں میں لوٹ مار کے دوران نوادرات اور قیمتی اشیاء کی فروخت شامل ہے۔

ایک اور امریکی انٹیلی جنس عہدے دار نے بتایا کہ داعش کی پیسہ اکھٹا کرنے کا طریقہ کار مافیا جیسی تنظیموں سے ملتا جلتا ہے۔ 'وہ بہت منظم، طریقہ کار کے مطابق چلنے والے اور تشدد اور ڈرا دھمکا کر اپنا کام کرتے ہیں'۔

امریکی انٹلین جنس حکام نے مثال دیتے ہوئے بتایا جون میں موصل پر قبضہ سے پہلے داعش نے تقریباًہر طرح کی تجارتی سرگرمی پر ٹیکس لگائے ہوئے تھے اور انہیں ادا نہ کرنے والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی تھیں۔

کونسل آن فارن ریلیشنز کے ایک تجزیہ کے مطابق گروپ صرف موصل سے ماہانہ اسی لاکھ ڈالرز کما رہا تھا ۔

امریکی انٹلیں جنس حکام کے مطابق، موصل اور دوسرے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کے بعد گروپ نے بینکوں سے لاکھوں ڈالرز کیش اپنے قبضہ میں لے لیے تھے۔

رواں سال داعش نے چار فراسیسی اور ہسپانوی مغوی صحافیوں کو ان کی متلعقہ حکومتوں سے لاکھوں ڈالرز تاوان وصول کرنے کے بعد رہا کیا تھا۔

ایک اور امریکی انٹلی جنس عہدے دار نے بتایا کہ داعش نے بڑی کامیابی سے زیر تسلط شمالی شام اور عراقی علاقوں کو پیسہ اکھٹا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ گروپ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے عراق اور ترکی کے درمیان سرحدی علاقہ سمگلنگ کے لئے کسی جنت سے کم نہیں۔ ان علاقوں میں کئی خاندان نسلوں سے غیر قانوی ڈھنگ سے اشیاء اِدھر اُدھر لے جاتے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے ابتدائی دور میں داعش کو زیادہ ترعطیات خلیجی ریاستوں بالخصوص کویت اور قطر کے امیر لوگوں سے ملتے تھے۔

حالی مہینوں میں گروپ کی تشدد پر مبنی حکمت عملی پر دنیا بھر کی توجہ مرکوز ہونے کے بعد ان عطیات کا ملنا بہت کم ہو گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے گروپ کے تیل کی سمگلنگ سے آمدنی پر انحصار کو باآسانی امریکی فضائی حملوں روکا جا سکتا ہے۔

تاہم، ابھی تک شام یا عراق میں تیل کے بنیادی ڈھانچہ کو ہدف بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024